BACK to Books page

کلیاتِ معظم خان اعظم

تعارف و تبصرہ: محمد عرفان عرفان

ریاست چترال کی تاریخ میں موضع شالی کے محبت کا خاندان ایک نمایان مقام رکھتا ہے۔ اس خاندان کے افراد ریاست کے وزیر اعظم کا عہدہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ علم و ادب کے شعبے میں بھی اس خاندان کو اہم حیثیت حاصل ریہ ہے۔ معظم خان اعظم، محبت کے پڑپوتے تھے۔ ان کے زمانے میں خاندان کی سیاسی اہمیت تو ختم ہوچکی تھی، تاہم علم و فضل کی روایت اب بھی ان میں قائم تھی۔ معطم خان اعظم فارسی شعر کہتے تھے اور ریاست کے حکمران شجاع الملک کے دربار میں انہیں ملک الشعراء کا خطاب حاصل تھا۔

معظم خان اعظم نے اپنا کلام ایک کلیات کی صورت میں ترتیب دیا تھا۔ شجاع الملک کے حکم سے میر منشی مرزا محمد غفران نے ان کے کلام کو حروف تہجی کے لحاظ سے ایک دیوان کی شکل میں ترتیب دیا۔ یہ دونوں مجموعے دستیاب ہیں۔ زیر نطر مجموعہ کلیات پر مبنی ہے، یعنی اعظم کی اپنی ترتیب کے مطابق۔ اس مجموعے میں حمد، نعت، غزلیات، مسدس، مخمس، مثنوی العرض پر قسم کا کلام شامل ہے۔ انہوں نے مولانا رومی کے طرز پر قرآنی آیات کو موضوع بنا کر اشعار میں ان کی تشریح کی ہے۔ اسی طرح شیخ سعدی کے طرز پر طنز و مزاح کو اظہار مدعا کا وسیلہ بنایا ہے۔

انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ان کے خاندان کے شاندار ماضی کے مطابق خود ان کو مقام نہیں دیا جارہا ہے۔ ان کے کلام میں ناقدریٔ زمانہ کی شکایت بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے شکایت اور ظرافت دونوں طریقوں سے اس شکایت کا اظہار کیا ہے۔ بادشاہ کے لیے ان کی شگفتہ بیانی ہمیشہ تفریح طبع کا سامان فراہم کرتی رہی، لیکن وہ اپنی خاندانی وجاہت اور ذاتی قابلیت کے باوجود کوئی بڑا عہدہ حاصل نہیں کرسکے۔ ان کے کلام میں زندگی کے زیر و بم کا عکس ہر جگہہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے سب کچھ تقدیر کے حوالے کرکے خودی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ہے۔

وہ اپنی حالت زار کو ایک منظوم عریضے کی صورت میں بادشاہ وقت شجاع الملک کو بھیجتا ہے۔ اپنے اباء واجداد کی خدمات کا ذکر کرکے لکھتے ہیں.

ازیں داستان شاہِ عالی نژاد
کند رفتگان را باانصاف یاد
باین خاندان مرحمت داشتند
زظلم و بدی روی بر کاشتند
ہمیں خاندان چونکہ آباد بود
ز شاہانِ پیشینہ بنیاد بود
کنوں مسکن و جائے چعدان شدہ
ز دستِ تو اے شاہ ویران شدہ
ہزار آفرین باد بر شہر یار
کہن خدمتان را چنیں کرد خوار
بکار بزرگان نکردہ نظر
باین خاندان بستہ کمر
سری را کہ چون برفروزی بجاہ
کہ بازش نشاید فگندن بچاہ
زشاہان نہ زیبد چنیں کار بد
بماند ہمی ایں سخن تا ابد
جہان گہ خزاں است و گہ بہار
نماند بکس مایہِ روزگار
کجا بادشاہانِ والا نژاد
کجا شہریارانِ با لطف و داد
چو گشتند از اشکارا نہاں
نبردند جز نام نیک از جہان
کہ بعد از تو اے خسرو گامکار
شود در جہان این سخن یادگار

اس کسمپرسی کی حالت میں درخواست کرتے ہوئے بھی وہ خودی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے اور خاتمۂ کلام میں بادشاہ سے کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے دیرینہ وفاداروں کی قدر نہیں کروگے تو تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے گی۔

اعظم کے کلام میں دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ بہت ہے۔ اس سلسلے میں وہ تاریخ کا حوالہ بار بار دیتا ہے۔ ایک جگہ وہ دنیا کے نامور بادشاہوں کے انجام پر یوں ماتم کناں ہے۔

از حادثاتِ گردشِ گردون کجا شدند
شاہان نامدار کہ بودند در جہان
بنگر نخست شاہ سلیمان کہ بود او
دیو پری بخدمتش در روز و شب جہان
شاہ سکندر انکہ سراسر جہان گرفت
کز فرو جاہ ہائے نہادی بفرقدان
کیخسرو خجستہ و جمشید با شکوہ
کاوس کیقباد و فریدون کامران
ہوشنگ و یزدگرد کیومرث نام جوئے
افراسیاب و شاہ منوچہر بابکان
ضحاک باسیاست و دارائے باحشم
اسفندیار و بہمن و نوشیروان ہمان
بہرام گور نامی و شاہ جہانِ ہند
اورنگزیب و اکبر و تیمور گورگان
ہارون کامیاب ہمایونِ فیض بخش
مامون سرفراز و ملک شاہ جم توان
محمود شاہ نادر و منصور با ظفر
احمد شہِ بفر و جہانگیر حکمران

اس طرح دنیا کی تاریخ کا کئی صفحوں تک تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں کہتا ہے کہ

بے نیش نوش دہر میسر نمی شود
اعظم بہار تازہ کہ دید است بے خزان

اسی موضوع پر مرزا محمد غفران متخلص بہ فارع نے بھی طبع ازمائی کی ہے جو اسی کتاب میں شامل ہے۔

اگرچہ معاصر تاریخ اعظم کا موضوع نہیں تاہم اپنے کئی چشم دید واقعات کو انہوں نے نظم کیا ہے، اور اس طرح تاریخ کے کئی گوشے محفوظ ہوگئے۔ ان نظموں میں سے ایک میں انہوں نے ایک پولو مقابلے کا مفصل حال نظم کیا ہے۔ یہ مقابلہ چترال اور ورشگوم (یسین، غذر، پونیال اور اشکومن) کی ٹیموں کے درمیاں ۱۹۰۸ میں غذر کے مقام پھنڈر میں کھیلا گیا۔ کھیلا گیا۔ نظم میں اس مقابلے میں شامل دونوں طرف کے کھلاڑیوں کا مفصل حال بیان ہوا ہے۔ ان میں چترال سے مہتر جو اسفندیار خان، مہتر جو غلام دستگیر، خوش لال، دیوان بیگی فیروز ہ بیگ، شابمبر حاکم اور اقسقال سلطان شاہ، جبکہ ورشگوم کی طرف سے اسکندر خان، خدا آمان، علی داد، خدا داد اور سلطان علی شامل ہیں۔ نظم مین یہ سارے کھلاڑی باری باری لاف زنی کرتے ہیں جس کے بین السطور کئی اہم واقعات اور ثقافتی اقدار کا تذکرہ ہے۔

اس مجموعے کا ایک نمایاں حصہ طنزیہ و مزاحیہ کلام پر مشتمل ہے۔ اپنے لاغر و نحیف گدھے کا حال نہایت پر لطف انداز میں لکھا ہے۔

ہُے ہُے خرکِ دلبرکِ افسرکِ من
خوشنوئے نیکو عادت فرمان برکِ من
ہمرہ کہ شود در رہ بارم کہ کشد وائے
اے عاجز فرمان برک لاغرک من

ایک گوجر لڑکی کو اپنی محبوبہ قرار دے کر اس کی تعریف یوں کرتے ہیں۔

گجری اے گل رویت قمری
گجری اے لب لعلت گجری
گجری روئے تو انور گجری
گجری ماہ منور گجری
گجری قدِ تو بالا گجری
گجری چشمِ تو شہلا گجری

انہوں نے اپنے ہم عصروں کا بھی لطیف پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اور یوں غیر شعوری طور پر اپنے معاصر معاشرے کے کئی گوشوں کو محفوظ کر لیا ہے۔ اگر تاریخی اور سماجی پہلو سے دیکھا جائے تو باوجود اشرافیہ کے طبقے سے تعلق کے، انہوں نے عام دیہاتی ماحول، غربت کی زندگی، گھریلو مسائل اور رسوم و رواج، سب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ یوں ان کے کلام میں اس کے عہد کی تاریخ اور معاشرت کے بہت سے پہلو عمدگی سے پیش کیے گئے ہیں۔

کلیاتِ اعظم
Read the Book online
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com