Back To Main Page

قدیم کھو کلچر میں جشتان کا تصور

ممتاز حسین

چترال کے کھو لوگوں کے قبل از اسلام کلچر کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ سوائے ان چند رسومات اور تصورات کے جو اسلام کی آمد کے بعد کسی حد تک برقرار رہے۔ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم کھو لوگ بہت سی ان دیکھی طاقتوں پر یقین رکھتے تھے جن کا تعلق ان کی زندگی کے مخلتف پہلؤں سے تھا۔ مثلاً پہاڑوں پر پریوں اور شاوان کی موجودگی اور ان سے متعلق رسومات۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھی کچھ طاقتوں کی موجودگی پر ان کو یقین تھا جیسے خانگی، شالوشیری اور جشتان۔ ان میں سے خانگی کو جو بے ضرر سانپ کی شکل میں ہوتا گھر اور شلوشیری کو مویشی خانے کا محافط سمجھا جاتا۔ لیکن جشتان کی حیثیت ان سے کافی مختلف اور اس کا رول غیر واضح تھا۔

جشتان بونے انسانوں جیسے ہوتے۔ وہ خاندانوں کی شکل لوگوں کے گھروں ہی میں قیام کرتے، انسانوں کی خوراک میں سے کھاتے اور چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے جیسے چیزیں چھپا دینا۔ ان کے سر پر ایک خاص قسم کی ٹوپی ہوتی جس میں اس کی جان ہوتی۔ یہ ٹوپی جب تک اس کے سر پر ہوتی وہ کسی کو نطر نہیں آتا۔ اگر یہ ٹوپی کسی انسان کے ہاتھ لگ جاتی تو جشتان اس کا غلام بن جاتا اور اس کے لیے ہر کام کرتا۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی گائے کے خشک اُپلے کے ٹکرے میں سوراخ کرکے اس میں سے دیکھے تو اسے جشان نظر آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھُڑ سوار جھک کر گھوڑے کے دو کانوں کے بیچ سے دیکھے تو انہیں دیکھ سکتا ہے۔ کچھ زیریں علاقوں میں یہ تصور تھا کہ راتوں کو ویرانوں میں جو متحرک روشنیاں نظر اتی ہیں وہ جشتانوں کی ہیں۔ لیکن بالائی چترال میں ان روشنیوں کے لیے "دوو" کا نام مستعمل تھا۔

جشتانوں کے ساتھ منسلک ایک تہوار ہر سال سردیوں کے شروع میں منایا جاتا جسے "جشتان ڈکئیک" (جشتانوں کو بھگانا) کہا جاتا تھا۔ ایک مقررہ دن کو گھر کا ایک فرد بآواز بلند یوں اعلان کرتا: "جشتانو سن لو! سردیاں آرہی ہیں اور برف پڑنے والی ہے۔ یہاں خوراک کی کمی بھی ہے جو ہمارے لیے ہی کافی نہیں۔ تم یہاں سے نکل کر ارندو چلے جاؤ جہاں موسم گرم ہے۔ سفر کی تیاری کرلو۔ جوتے مرمت کرلو اور شیرخوار بچوں کو کپڑوں میں لپیٹ لو۔ کل سویرے تمہیں یہاں سے نکلنا ہے"۔ جشتانوں کے لیے سفر میں کھانے کے لیے پِنیکی (گندم کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں) پکا کر طاقچوں میں رکھ دیتے تاکہ وہ جاتے ہوئے اُٹھا لیں۔

سویرے اٹھ کر گھر کا سارا سامان باہر نکال دیتے۔ اس کے بعد ایک فرد جھاڑو لے کر گونج (سٹور) میں جاتا اور جھاڑو ادھر ادھر مارتا جیسے جشتانوں کو باہر نکال رہا ہو۔ گونج کو خالی کرنے کے بعد اس کا دروازہ بند کرکے گھر کے مرکزی کمرے (کھوار ختان) سے اسی طرح مل کر جشتانوں کو باہر نکالتے۔ ایک آدھ فرد گھر سے باہر کافی دور تک ان کا پیچھا کرتا تاکہ وہ کسی طرف سے واپس نہ آجائیں۔ جشتانوں کو نکالنے سے پہلے ان کے راستے پر کوئی تیز دھار الہ جیسے چھری یا درانتی وغیرہ رکھ دیتے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جشتانوں کے پاؤں اس سے لگیں تو ان کے ناخن ٹوٹ کر گر جائیں۔ بعد میں اس راستے کی تلاشی لی جاتی اور ناخن جیسے کوئی چیز مل جاتی تو اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھ کر رکھ لیا جاتا۔ اس کے بعد گھر کی اچھی طرح صفائی کرکے سامان واپس لاتے۔ اس موقع پر مختلف علاقوں میں مختلف کھانے پکانے کا رواج بھی تھا۔ گرمیوں کے آغاز میں جشتانوں کی واپسی کب ہوتی اس بارے میں کوئی روایت نہیں اور نہ اس سلسلے میں کوئی رسم منائی جاتی۔

لفظ "جشتان" سے قریب ترین لفظ کلاش کلچر کا "جشتک ہان" ہے۔ یہ ایک عمارت ہوتی ہے جو چھوٹے گاؤں یا محلے میں ایک دیوی "جشتک" کے لیے تعمیر کی جاتی ہے ۔ جشتک کلاش عقیدے کے مطابق خاندانی امور کی نگران ہے۔ اندازہ ہے کہ کلاش اور کھو کلچر کے الگ ہونے سے پہلے "جشتک" اور "جشتان" دونوں کا ایک ہی تصور تھا۔ بعد میں تبدیلیوں سے گزر کر کلاشوں میں یہ تصور ایک مقدس دیوی اور اس کی قربان گاہ بن گیا جب کہ کھو لوگوں میں یہ degenerate ہوکر ایک ناپسندیدہ مخلوق کی شکل اختیار کر گیا۔ بالائی چترال کے کے علاقے کوشٹ میں ایک محلے کا نام "جشتنانان بُت" رہا ہے۔ شاید یہ مقام اسلام سے قبل "جشتک ہان" جیسا کوئی مقدس مقام ہوگا۔ ماہر آثار قدیمہ Aurel Stein خیال ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کوئی بدھسٹ سٹوپا ہوگا جسے اسلام آنے کے بعد بت خانہ سمجھا گیا ہو۔ یہ بات خارج از امکان نہیں لیکن "جشان" لفظ کا اس نام میں شامل ہونا پھر بھی حل طلب ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کلاش اور کھو لوگ اس علاقے میں بدھ اثرات کے خاتمے کے بعد آئے۔ بدھ اثرات (وہ جس قدر بھی ہوں) کے خاتمے اور اسلام کی آمد کے درمیاں پانچ چھ سو سال کا عرصہ بنتا ہے جس کے دوران بعض بدھ اثرات کا تقدس مقامی لوگوں کے نزدیک کسی نہ کسی صورت میں باقی رہا۔ اس کی ایک مثال چرون کا چٹانی کتبہ ہے۔ بدھسٹ اثرات کے خاتمے کے بعد بھی اسے "معجد" کے نام سے تقدس کا حامل سمجھا گیا۔ "جشتانان بُت" بالائی چترال کے کچھ اور علاقوں میں ہونے کی روایات موجود ہیں۔ نیز کچھ آبادیوں میں ایسے کھنڈرات موجود رہے ہیں جن کا کوئی خاص نام تو نہیں تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قبل از اسلام "بُت خانے" تھے۔

جشتان سے متعلق توہمات اور رسومات علاقے میں اسلام کے آنے کے بعد بھی صدیوں تک برقرار رہے اور کچھ علاقوں میں پچھلی صدی کے وسط تک "جشتان ڈکیئک" کی رسم منائی جاتی تھی۔ ایسے بہت سے لوگ اب بھی موجود ہیں جو جشتانوں کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com