Back To Main Page

ہمالیہ ہندوکش کی وادیوں میں پشتون قبائل کی دراندازی

پروفیسر جمیل یوسفزئی

پشتون نسل کے لوگوں کا اصل وطن کوہ سلیمان کے اردگرد کا علاقہ تھا۔ یہاں سے وہ رفتہ رفتہ شمال کی طرف پھیلے۔ مختلف علاقوں میں جا کر بسنے والے پشتون قبائل مختلف ناموں سے پہچانے جانے لگے مثلاً کوہ سلیمان میں غلجی، لودھی، بٹینی، اورخٹک، ننگرہار میں محمد زئی اور کابل کے نواح میں یوسف زئی۔ 1485 کے لگ بھک مغل بادشاہ الغ بیگ نے یوسف زئیوں کو ان کی شورہ پشتی کی بناء پر یہاں سے بے دخل کیا، اور وہ ہشنگر (چارسدہ) اور باجوڑ میں آکر بس گئے۔

پشتون بنیادی طور پر خانہ بدوش گروہ تھے جن کا بنیادی پیشہ بھیڑ بکریاں چرانا تھا۔ ان کا بیشتر وقت پہاڑی علاقوں میں گذرا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے استعمال ہونے والے سارے نام پہاڑ سے نسبت رکھتے ہیں، جیسے افغان، روہیلا، پٹھان اور پشتون۔

جس زمانے میں یوسف زئی وادیٔ پشاور میں وارد ہوئے، اس علاقے کے شمال میں ایک مظبوط سلطنت قائم تھی جسے جہانگیری سلطنت کہا جاتا تھا۔ جہانگیری سلاطین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترک نسل کے تھے۔ ان کا دارلحکومت سوات میں منگلور کے مقام پر تھا اور وہ سردیوں کا موسم تھانہ (ملاکنڈ ایجنسی) میں گزارتے تھے۔ ان سلطنت میں سوات، دیر، بونیر، مردان اور ہشنگر تک کے علاقے شامل تھے۔ میدانی علاقوں کا صوبہ دار چارسدہ کے شمال میں قیام کرتا تھا۔

یوسفزیئوں کی بڑی تعداد کو الغ بیگ نے قتل کر دیا تھا۔ چنانچہ جب وہ ہشنگر پہنچے تو لٹے پٹے اور خستہ حالت میں تھے۔ ان سے پہلے جو لوگ اس علاقے میں آباد تھے وہ گائے پالتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی پشتونوں نے بھی بھیڑ بکریوں کی جگہ گائے پالنا شروغ کیا۔ اُس زمانے میں بیل باربرداری کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ ان کے پاس گھوڑے تھوڑے تھے اور صرف یلغاروں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ لوگ خچر شاید نہیں پالتے تھے البتہ پکھلی (ہزارہ) کے خچر اکبر بادشاہ کے زمانے میں مشہور تھے۔ بیل گائے پالنے کی وجہ سے یوسفزیئوں کی مالی حالت میں کچھ بہتری آئی۔ یہاں انہوں نے تجارت کی طرف بھی توجہ دی۔ وہ کرک سے نمک اور کوہاٹ سے مزری (ایک قسم کی کجھور کے پتے) کی بنی ہوئی چٹایئاں اور ٹوکریاں لا کر فروخت کرتے۔ نمک کی تجارت پشتونوں کا خاص کاروبار بنا اور وہ اسے سوات، دیر اور چترال تک لے جا کر فروخت کرتے۔ اُس زمانے میں زیادہ لین دین مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتا تھا جسے پشتو میں مرچہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ نمک اور ٹوکریوں کے بدلے اخروٹ، دنداسہ، گندہ بیروزہ، اور غناب لا کر پشاور کے بازاروں میں فروخت کرتے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ گھوڑوں کی خرید و فروخت بھی کرتے تھے۔ تواریخ حافظ رحمت خانی میں اس تجارت کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ پشتونوں کا شمالی پہاڑی وادیوں سے پہلا رابطہ تھا۔ نمک کی تجارت پر پشتونوں کی اجارہ داری موجودہ دور تک برقرار رہی۔ تاہم بعد میں بیلوں کی جگہ باربرداری کا کام گدھوں اور خچروں سے لیا جانے لگا۔ یہی بنجارہ پن یوسفزئیوں کو چیلاس اور داریل کی وادیوں تک لے گیا۔ چترال اور گلگت کے انتہائی شمال میں بسنے والے پشتون تاجروں کی اولاد اب بھی موجود ہے۔

1508 کے لگ بھگ یوسفزئی سردار ملک احمد کو بابر بادشاہ نے کابل بلایا۔ وہ اُس زمانے میں ملاکنڈ کے پہاڑ ہزارنو کے آس پاس قیام پذیر تھے۔ ملک احمد نے دریائے سوات کو پار کیا اور گل اباد (چکدرہ) میں ایک یوسفزئی ملک کے ہاں رات گذ اری۔ یہاں سے چل کر اس نے دریائے پنجکورہ پار کیا اور بن شاہی (جندول) میں ایک پشتون خاندان کے ہاں قیام کیا۔ ان شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں پشتون آباد ہوچکے تھے، حالانکہ سوات کی جہانگیری سلطنت کا اقتدار ابھی قائم تھا۔ ان علاقوں میں پشتون آبادیوں کی پہلے سے موجودگی ان کی تسخیر میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔

سولہویں صدی کے اغاز پر پشتون زیریں سوات میں موجود تھے۔ یہیں سے وہ بالائی سوات، دیر اور باجوڑ تک ترکتازیاں کرتے رہتے۔ بابر بادشاہ نے ان کی توسیع پسندی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور سوات کی دوسری مہم کے دوران 1519 میں ایک فرمان کے ذریعے انہیں اردگرد کے علاقوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے باز رہنے کو کہا۔ لیکن بادشاہ کے چلے جانے کے بعد انہوں نے اپنے حملے پھر شروغ کیے، یہاں تک کہ سوات کے جہانگیری سلطان کو فرار ہوکر دیر کی ایک وادی نہاگ درہ میں پناہ لینی پڑی۔ یہیں پر انہوں نے ایک چھوٹی ریاست قائم کرلی تا آنکہ 1542 میں موسم بہار کے جشن کے دوران یوسفزئیوں نے حملہ کرکے آخری سلطان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح اس علاقے میں پشتونوں سے قبل کی تاریخ کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔

تقریباً اسی زمانے میں یوسفزئی دیر میں بھی پھیل گئے۔ باجوڑ کے آخری غیر پشتوں حکمران حیدر علی گبری کا خاتمہ بابر کے ہاتھوں ہوچکا تھا۔ اس لیے یہاں بھی پشتون آسانی سے قابض ہوگئے۔ انہی دنوں پشتونوں میں ایک اندرونی مناقشہ بایزید انصاری اور آخوند درویزہ کی چپقلش کی صورت میں ظہور پذیر ہوا جس میں آخوند درویزہ کو مغلوں کی حمایت حاصل تھی۔ 1581 میں اکبری فوج بیربل کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے سوات، بونیر، دیر اور باجوڑ میں در آئی۔ یوسفزئی لوگوں اور ان کی تخت و تاراج سے سخت نقصان اٹھانا پڑا اور وہ بھاگ کر شمال کی طرف چلے گئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ داریل جیسے دوردراز وادیوں میں پشتون پائے جاتے ہیں۔ باجوڑ میں مغل فوج کی یوسفزئیوں سے شدید جنگ ہوئی اور کچھ پشتون بھاگ کر کافرستان چلے گئے، جن میں سے ایک سردار محمد خان کافروں کے ہاتھ قتل ہوا۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ پشتون زیریں چترال میں آباد ہوگئے ہوں۔

مغل فوجوں کی واپسی کے بعد منتشر یوسفزئی اپنے علاقوں کو لوٹ آئے اور خانہ بدوشی چھوڑ کر زراعت اور تجارت سے واپستہ ہوکر رہنے لگے۔ پیر بابا اور آخوند درویزہ کی اولاد نے اب یوسفزئیوں کو تبلیغی جہاد کے نام پر اکٹھا کرنا شروغ کیا اور شمالی دروں میں رہنے والے قدیم قبائل کے خلاف باقاعدہ لام بندی ہوئی۔ ان قبائل نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اپنے قدیم مذہب پر قائم تھے۔ اس جنگ کے تین محاذتھے۔ اول مشرق میں دریائے سندھ کے ساتھ تربیلہ سے لے کر چیلاس تک، دوم شمال میں بالائی سوات میں منگلور سے کالام اور کمراٹ تک اور مغرب میں چغانسرائے (اسد اباد) سے ارندو اور نورستان تک۔ ان سب محاذوں پر بے شمار لڑائیں ہوئیں جن میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ آبادی کی وسیع پیمانے پر منتقلی ہوئی جس کی وجہ سے زبانیں اور ثقافتیں خلط ملط ہوگئیں۔ اس دوران سادات اور آخوند زادوں کی قیادت مسلم ہوگئی۔ اگرچہ یوسفزئیوں کی سرداریاں قائم تھیں لیکن جہاد کے لیے مذہبی طبقوں کی حمایت ضروری تھی۔ 1669 میں خوشحال خان خٹک لشکر جمع کرنے کے لیے سوات آیا تو اسے کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ مذہبی طبقہ اس کی طالع ازمائی کو پسند نہیں کرتا تھا۔ انہیں جنگوں کے دوران دیر میں ایک مذہبی قیادت آخوند الیاس کی صورت میں ابھری، جن کے صاحبزادے آئیندہ چل کر ریاست دیر کے حکمران بنے۔

یوسفزئی لوگ تسخیر سوات کے متمنی تھے کیونکہ ان کے ایک بزرگ انہیں نے اس کی بشارت دی تھی۔ اس لیے وہ جہانگیری سلطنت کی بیخ کنی کو ایک فریضہ سمجھتے تھے۔ تاہم وہ کوہستان، گلگت اور چترال تک نہیں پہنچ سکے۔ خصوصاً چترال ان کی دست برد سے مکمل طور پر محفوط رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھِں۔ مثلاً (ا) چترال کے لوگ پرامن تھے اور ان سے یوسفزئیوں کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ (ب) چترال اور گلگت کے راستے نہایت دشوار تھے اور ان تک آسانی سے پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ خصوصاً برفانی درہ لواری ان کے لیے بڑی رکاوٹ تھی۔ "لواری" شاید پشتو ترکیب "لویہ واورہ" کی بگڑی شکل ہے جس کا مطلب ہے "بڑی برف"۔ (ج) چترال اور گلگت میں مال غنیمت اور زرخیز زمینات کے ملنے کی توقع کم ہی تھی۔ (د) جہادی لڑائیوں اور اس سے پہلے روشائیہ اور درویزہ کی محاز آرائیوں کے نتیجے میں ان کی قوت میں کمی آگئی تھی۔ (ہ) خٹکوں اور مغلوں کی وجہ سے یوسفزئیوں کی توجہ جنوب کی طرف ہوگئی اور وہ شمال کی طرف مزید پیش قدمی کرنے کے قابل نہ رہے۔

اگرچہ پشتون دیر سوات کوہستان، چترال، گلگت ، داریل، تنگیر اور چیلاس جیسی بالائی وادیواں کو فتح نہ کرسکے لیکن تجارت یا دوسرے بہانوں سے ان کی کچھ آبادیاں ان وادیوں میں قائم ہوگئیں۔ ان میں سے کچھ علاقوں میں یہ اپنی زبان بولتے ہیں اور کہیں یہ مقامی ابادی میں مدعم ہوچکے ہیں۔ اگر یوسفزئیوں کو جنوب سے خٹکوں اور روشنائیوں کی طرف سے مسائل نہ ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ یہ ان سب وادیوں کو سوات کی طرح فتح کر لیتے۔ یہ درست ہے کہ پہاڑی لوگ ان سے کچھ کم جنگجو نہیں تھے تاہم یوسفزئی اپنے دور اقبال میں اپنے سے کہیں طاقتور گروہوں کو نیچا دکھا چکے تھے۔ دلہ زاک قبیلے کو شکست دینا یا سوات کی تسخیر آسان کام نہیں تھے، لیکن ملک احمد کی ولولہ انگیز قیادت نے ان کاموں کو ان کے لیے آسان کر دیا۔

1510 اور 1580 کے درمیان یوسفزئی اپنا دور عروج دیکھ چکے تھے۔ اس کے بعد ان کا جذبہ ملک گیری رفتہ رفتہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ دیر کے حکمرانوں نے لواری کے پار علاقوں پر دست اندازی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ تاہم جندول میں عمرا خان کی صورت میں ایک نیا طالع ازما پیدا ہوا۔ عمرا خان کا اقتدار بہت جلد جندول سے نکل کر دیر سوات اور ملاکنڈ کے علاقوں تک پھیل گیا۔ لیکن چترال میں فوج کشی اس کے لیے اسی طرح تباہ کن ثابت ہوئی جیسے نپولن کے لیے روس پر فوج کشی ثابت ہوئی تھی۔ شاید عمرا خان کامیاب ہوجاتا لیکن اس کا مقابلہ یہاں مقامی قبائل سے نہیں بلکہ انگریزوں سے تھا۔ عمرا خان کے خاتمے کے بعد چترال، دیر اور سوات انگریزوں کے دست نگر ہوکر رہ گئے اور اس کی مرضی کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس کے ساتھ قبائلی مہم جوئیوں کا زمانہ بھی لد گیا۔

مزید پڑھیے۔۔۔۔ داردی لوگوں کی کہانی

The writer

Jamil yosufzai (Sayyad Badrul Jamil) is a Professor of Urdu Literature. A prolific writer who has made contribution to almost all forms in Urdu and Pashto. His main field of interest is Pashtun History.
19.03.2018

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com