Back

تاریخ چترال کا ابتدائی دور-کچھ مسائل

ٗممتاز حسین
(01.01.2016)

چترال اور اس کے قریبی علاقے جیسے گلگت، بلتستان، کوہستان اور نورستان وغیرہ اپنی دشوار جعرافیائی حالات کی وجہ سے ارد گرد کی تاریخ سے عموما الگ تھلگ ہے رہے۔ قدیم تاریخی مآخذ میں ان علاقوں کے تذکرے بہت شاذ نادر اور سرسری ہیں۔ خود چترال کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر رہا ہے، اس لیے مقامی طور پر تاریخ نویسی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ زبانی روایات کو سینہ بسینہ بقل کرنے کی روایت کافی مقبول رہی ہے، لیکن حکمران خاندانوں کے اقتدار میں استحکام نہ رہنے اور ان کے ساتھ صاحب حیثیت خاندانوں کی قسمتوں میں اتار چڑھاو کی وجہ سے زبانی تاریخ دانی اور شجرہ خوانی کا سلسلہ ٹوٹنا رہا ہے۔ زبانی روایات سے تاریخ اخذ کرنے کے سلسلے میں دو قسم کے مسائل ہمیشہ درپیش رہے ہین: اول یہ کہ زبانی روایت میں تاریخی ترتیب اور زمانے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ دوم یہ کہ راوی عموماً اپنے خاندان یا اپنے سرپرست حکمران خاندان کے بارے میں روایت کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ مبالغے سے نہیں بچ سکتا۔ مبالغے کی کثرت کی وجہ سے اکثر تاریخی روایت اور اساطیر(Myth) کو خلط ملط کیا جاتا ہے، اور حقیقی تاریخی واقعات کو اساطیر سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چترال اور گلگت میں جب ان روایات کی مدد سے تاریخ لکھنے کی کوشش کی گئی تو یہی مسائل پیش آئے۔ تاریخ لکھنے والوں کو جب مختلف واقعات کے سن روایات سے نہیں ملے تو اپنی طرف سے سن لکھے۔ دوسری طرف ان روایات میں مبالغے کا عنصر بھی تھا اس لے واقعات کی تاریخی ترتیب میں بڑی حد تک گڑ بڑ ہو گئی۔

چترالی تاریخ نویسی

مقامی طور پر تاریخ نویسی کے سلسلے میں اولین کام محمد سیر(1) کا ہے جو بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انہوں نے کچھ تاریخی واقعات کو رزمیہ انداز میں منظوم کیا۔ فارسی رزمیہ کی روایت کے مطابق اس میں زیادہ تر جنگوں کا حال بیان ہوا ہے اور تاریخی ترتیب کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیر نے صرف کٹور خاندان کے حالات لکھے ہیں اور ان سے پہلے کے حالات پر روشنی نہیں ڈالی۔ سیر کا شاہنامہ انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں کے دوران لکھا گیا۔ اس کے بعد ہمیں اس سلسلے میں اور کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ 1892 کے بعد مرزا محمد غفران(2) نے ایک مختصر کتاب چترال کی تاریخ پر لکھی. کتاب کا مواد بنیادی طور پر سیر کے شاہنامے سے لیا گیا ہے اور یہ نثر میں ہے۔ غفران لکھتے ہیں کہ انہوں نے کتاب فارسی کی روایت کے برعکس نثر میں اس لیے لکھی کہ نظم میں تاریخ کو درست طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ سیر کی طرح غفران نے بھی صرف کٹور دور کے واقعات لکھے ہیں اور اس سے پہلے کے ادوار کو نہیں چھیڑا ہے۔ اس کتاب کا ایک نسخہ انگریزی حکام کے حوالے کیا گیا تھا اور منشی عزیز الدین(3) نے اسی کی بنیاد پر اپنی اردو تاریخ چترال لکھی۔

1919 میں مرزا غفران نے تاریخ چترال پر ایک زیادہ تفصیلی کتاب لکھی جو مہتر چترال نے 1921 میں اپنے خرچے پر چھپوائی، تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر کتاب کو شائع نہیں کیا گیا بلکہ اس کی کاپیاں ضائع کر دی گئیں۔ صرف دو یا تین کاپیاں کسی طرح بچ نکلیں جن میں سے ایک چند سال پہلے منظر عام پر آگئی۔ اسی کتاب کو بنیاد بنا کر مہتر محمد ناصر الملک(4) نے 1940 میں چترال کی تاریخ پر مزید کام شروغ کیا، لیکن اس کی تکمیل سے قبل ان کا انتقال ہو گیا۔

1950 کے بعد مرزا غفران کے فرزند مرزا غلام مرتضیٰ نے اس کام کو پھر سے آگے بڑھایا۔ وہ ناصر الملک کے ساتھ اس کام میں ہاتھ بٹانے والوں میں سے تھے۔ ان کا کام پہلے کی طرح فارسی میں تھا، تاہم اس کا اردو ترحمہ 1961 میں "نئی تاریخ چترال" کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کو بہت پذیرائی ملی اور یہ ایک عرصے تک چترال کی تاریخ پر سب سے مستند حوالہ سمجھی جاتی رہی۔ کتاب میں پہلی مرتبہ کٹور دور سے پہلے کی تاریخ کو تفصیل سے لکھا گیا اور تمام واقعات کی تاریخیں دی گئیں۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے یوں لگا کہ چترال کی تاریخ کے کم از کم ایک ہزار سال سالہ دور کی تفصیلات پوری صحت کے ساتھ سامنے آ گئی ہیں۔

1880 کے بعد چترال میں انگریزوں کا عمل دخل شروغ ہوا تو انہوں نے اس علاقے کے بارے مں لکھنا شروغ کیا۔ Biddulf جو گلگت میں اولین انگریزی ایجنٹ تھے، نے ایک کتاب اس علاقے پر لکھی جس میں دیگر موضوعات کے علاوہ علاقے کی تاریخ پر بھی معلومات شامل ہیں۔ اس کے بعد بہت سے مغربی اور مقامی لکھنے والوں نے اس علاقے پر لکھا۔ تاہم تاریخ پر کوئی مستقل تصنیف سامنے نہیں آئی، اور بیشتر لکھنے والوں نے مقامی روایات کو جوں کا توں نقل کیا۔ چوں کہ تاریخ ان کتابوں کا اصل موضوع نہیں تھا، اس لیے روایات کے تجزیے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔

لیکن 1980 کی دہائی میں جب ایک جرمن سکالر Wolfgang Holzwarth نے ارد گرد کے علاقوں کے قدیم ماخذ سے نئی تاریخ چترال کے مندرجات کا تقابلی مطالعہ کیا تو عجیب صورت حال سامنے آئی۔ معلوم ہوا کہ نئی تاریخ چترال کے لکھنے والوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس علاقے کے حکمران خاندانوں کو بہت قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ Holzwarth اور دیگر محققین کے کام کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ نہ صرف کٹور خاندان بلکہ ان سے پہلے کے حکمرانوں کے ادوار کو کافی طول دے دیا گیا ہے۔۔

اگرچہ مرزا غلام مرتضٰی کو بیرونی مآخذ تک رسائی حاصل نہیں تھی لیکن ان کے پاس ایک اہم ذریعہ شاہی سندات(5) کے ایک سلسلے کی صورت میں موجود تھا جس سے وہ کئی حکمرانوں کا زمانہ درستگی کے ساتھ متعین کرسکتے تھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف سندات پر درج ہجری تاریخوں کو عیسوی میں تبدیل کرتے ہوئے غلطیاں کیں بلکہ سندات کو نقل کرتے ہوئے کئی ہجری تاریخوں کو ہی غلط نقل کیا۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب کی تاریخی ترتیب میں کئی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کے بعد نئی تاریخ چترال کا بیانیہ بڑی حد تک مشکوک ہوگیا، خصوصاً وہ حصہ جس میں کٹور خاندان سے قبل کے ادوار کا ذکر ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ نئے شواہد منظر عام پر آتے رہے۔ چنانچہ اب یہ کسی حد تک ممکن ہوگیا ہے کہ چترال کے قبل کٹور دور کا خاکہ نئے سرے سے ترتیب دیا جا سکے۔ ایک ایسا ہی ممکنہ خاکہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ خاکہ ابتدائی نوعیت کا ہے اور اس سلسلے مین مزید شواہد کی دستیابی سے اس میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔

Gandhara Grave Culture

اس علاقے میں انسانی آبادی کے قدیم ترین شواہد قبروں کی صورت میں دریافت ہوئے ہیں جن کی قدامت کا اندازہ تقریباً 3500 سال تک لگایا گیا ہے۔ ان قبروں میں جو اوچشت، دنین، سنگور پرواک اور دیگر کئی مقامات پر دریافت ہوئے ہیں، مُردوں کو ان کے ساز و سامان کے ساتھ دفن کیا گیا ہے۔ ان آثار سے ماہرین اندازہ لگاتے ہیں کہ چترال کی وادی ایک بڑی تہذیب کا حصہ تھی جو وادی پشاور اور شمالی پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی (Ali. I., Batt, C.M., Coningham, R.A.E. & Young, R.L. 2002 )

چٹانی کتبات

چترال میں کم از کم تین مقامات پر چٹانی کتبات دریافت ہوئے ہیں جن کا تعلق گلگت اور اس کے گرد و نوح کی بودھ تہذیب سے ہے۔ ان کتبات کا جو برینس، چرون اور رائین کے مقامات پر ہیں، زمانہ تقریباً چوتھی صدی عیسوی بتایا جاتا ہے۔ ان کتبات کو گلگت کی وادی میں پائے جانے والے کتبات کے سلسلے سے بتایا جاتا ہے۔ ان کتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ بودھ تہذیب جو گندھارا سے تبت تک پھیلی ہوئی تھی، کے اثرات کسی حد تک چترال تک پہنچے ہوئے تھے۔

چترال میں قبل از اسلام مذاہب

چترال میں اسلام کی آمد کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں لیکن قبل از اسلام مذاہب کے اثرات بہت تیزی سے مٹ چکے ہیں۔ اگرچہ اسلام کی آمد سے قبل چترال بلکہ ہندوکش اور قراقرم کی ساری وادیاں ایک بڑی ثقافتی علاقے کا حصہ تھیں، لیکن مختلف وادیوں میں مذہب اور ثقافت کا فرق کافی نمایاں تھا۔ اگر ہم صرف چترال ہی کو لے لیں تو اس کے اندر ایک سے زیادہ ثقافتی گروہ موجود تھے۔ ان گروہوں کی حد بندی کا سب سے آسان ذریعہ زبان ہے۔ چترال میں چھ زبانیں ایسی ہیں جو کافی قدیم زمانے سے بولی جارہی ہیں۔ یعنی کھوار، کلاشہ، دمیڑی، گوار بٹی، یدغا اور پلولہ۔ یہ بھی یقینی ہے کہ ان زبانوں کے بولنے والے اسلام کی آمد سے پہلے اس علاقے میں موجود تھے۔ چونکہ ان لسانی گروہوں کا موجودہ کلچر مماثلتوں کے باوجود ایک دوسرے کافی مختلف ہے، اس لیے ہم باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام سے پہلے ان کے رسوم و رواج، عقاید، اور طرز زندگی میں اتنا فرق ضرور ہوگا کہ ہم انہیں الگ الگ مذاہب کے پیرو کہہ سکیں۔ لیکن آج کل ایک غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے کہ اسلام سے قبل سارے چترال کا مذہب کلاش تھا۔ یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ کلاش مذہب پر عمل کرنے والے اب بھی موجود ہیں اور ہم ان کے مذہبی نظام کو کسی حد تک جانتے ہیں۔ جب کہ دیگر مذاہب کی شکل و صورت مکمل طور پر فراموش کر دی گئی ہے۔ تاہم یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ مذکورہ بالا ثقافتی گروہ اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے مذہبی عقاید، رسومات اور روایات رکھتے تھے جو مماثلتوں کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف تھے۔

ان مذاہب کی شکل کیا تھی، اس کا درست اندازہ لگانا آج بہت مشکل ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ مذاہب اپنے بنیادی تصورات میں موجودہ کلاش مذہب سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ تاہم مذہب کی عملی شکل اور جزیئات میں ہر گروہ اپنی علٰحیدہ شناخت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ان گروہوں کے لیے مذہبی اور غیر مذہبی معاملات کا فرق تقریباً نہ ہونے کے برار تھا اس لیے ہم ان کے مذہب کو ثقافت سے الگ نہیں کر سکتے۔ ان گروہوں کی ثقافتوں میں پاکی اور ناپاکی کا تصور بڑی حد تک مشترک تھا۔ جیسے بعض پالتو جانوروں کو پاکیزہ سمجھنے کا عقیدہ، پہاڑوں کی اونچائیوں کو پاک اور وادی کی پستی کو ناپاک سمجھنا، بلند پہاڑی چوٹیوں پر رہنے والی پریوں کا عقیدہ، مرد کو پاک اور عورت کو ناپاک سمجھنا وغیرہ۔ ایک چیز جو اس سارے خطے میں مشترک تھی وہ شامانیت (Shamanism) ہے۔ ہر علاقے میں ایسے افراد موجود ہوتے تھے جو موسیقی اور دھونی کے زیر اثر وجد میں آتے اور پیش گوئیاں کرتے۔ یہ رسم کلاش قبائل میں اب بھی موجود ہے، جب کہ گلگت کے اکثر علاقوں میں ماضی قریب تک موجود تھا۔ ان تصورات کی بنیادوں پر ہر گروہ نے رسوم و رواج کی عمارت کھڑی کی تھی، جسے ہم اس گروہ کا مذہب کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ ان تصورات میں سے بیشتر کو اس علاقے میں آریہ اپنے ساتھ لائے تھے اس لیے لامحالہ دیگر آریہ گرہوں کے ساتھ ان کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ جیسے ہندو مذہب اور زردشتیت۔ ان مشابہتوں کی وجہ سے بعض اوقات یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ شاید چترال اور اردگرد کے پہاڑی علاقوں میں قدیم زمانے میں ہندو مذہب یا زردشتیت کی جڑیں مظبوط تھیں۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ ان علاقوں میں قدیم آریاوں کے لائے ہوئے تصورات اور شاید ان سے بھی پہلے یہاں کے رہنے والوں کے عقاید کے ملاپ سے جو مذہبی نظام وجود میں آیا تھا وہ ہندو مت اور زردشتیت کے متوازی پروان چڑھا اور اس وقت تک برقرار رہا جب تک اسلام نے اس کی جگہ نہیں لی۔ اس لیے ہم کسی قدر وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بڑے عالمی مذاہب میں سے صرف اسلام کو ہی اس علاقے میں قدم جمانے میں کامیابی ہوئی۔ لیکن وہ بھی اردگرد کے علاقوں کی نسبت بہت دیر سے۔

چترال کے جنوبی اور شمالی علاقوں میں تبدیلی مذہب کا عمل ایک دوسرے سے مختلف انداز میں ہوا۔ جنوب میں تبدیلی اچانک شروع ہوئی اور نہایت تیزی سے تکمیل کو پہنچی، جب کہ شمال میں تبدیلی کا عمل کافی پہلے شروع ہوا لیکن سست رفتاری سے آگے بڑھی۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ بیشتر علاقوں میں یہ عمل غیر محسوس طور پر ہوا ہوگا۔ جنوب میں تبدیلی کے عمل سے گذرنے کے بعد گروہوں نے اپنا سارا مذہب بلکہ ثقافت اور بعض صورتوں میں زبان تک کو ترک کر دیا (Cacopardo, A. in Bashir & Isra ud Din 1996:254-56) ۔ لیکن شمال میں کھوار بولنے والے لوگوں میں صرف مذہبی عقاید اور اعمال تبدیل ہوئے۔ ثقافتی علامات اور زبان میں تبدیلی بہت کم ہوئی۔ شمال میں کھوار اور یدغا بولنے والے علاقوں میں تبدیلی کا عمل کئی صدیاں پہلے شروغ ہوا اور بیسویں صدی میں بھی جاری رہا۔ اس کی ابتدا شاید بدخشان کی طرف سے آنے والوں کے ذریعے ہوا۔ چترال سے ملحق بدخشان کے علاقے جیسے زیباک، منجان، اور واخان اسمٰعیلی آبادی پر مشتمل تھے۔ اس لیے چترال میں بھی اولین تبدیلی اس مذہب میں ہوئی ہو گی۔ لیکن اولین اسمٰعیلی مبلغین کا مطالبہ مقامی آبادی سے اس سے زیادہ نہیں ہوگا کہ وہ کلمہ پڑھیں اور امامت کے عقیدے کو اپنائیں۔ دراصل خود بدخشان وغیرہ میں بھی اس زمانے میں اسمٰعیلیت کے اثرات بہت مدہم ہونگے۔ امام کے ساتھ رابطہ جو ایران میں قیام رکھتے تھے، پیروں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہوگا۔ چنانچہ مقامی پیروں کو عقیدے اور عمل میں کافی آزادی حاصل ہوتی ہوگی۔

ایسا لگتا ہے کہ بالائی چترال کی وادیوں میں مذہبی تبدیلی انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہوئی ہوگی۔ چنانچہ اس علاقے میں بہت قبل از اسلام رسومات اور عقاید کافی دیر تک باقی رہے۔ بلکہ اکثر ان قدیم روایات کو لوگ اسمٰعیلی مذہب کا حصہ ہی سمجھتے رہے۔ قدیم مذہب اور کلچر کے یہ اثرات بیسویں صدی میں امام کے ساتھ بہتر رابطوں کے بعد کم ہوئے۔ ان اثرات میں کمی کا ایک سبب سنی مذہب کا فروغ بھی تھا۔ تاہم اب بھی قدیم مذہب اور کلچر کے اثرات کھو معاشرے میں کسی قدر ملتے ہیں۔

یہ خیال عام ہے کہ چترال اور اس کے قریبی علاقوں میں زردشتی اور بودھ مذاہب کا رواج رہا ہے۔ ان مذاہب کے کچھ اثرات مقامی معاشرت پر ضرور پڑے ہوں گے جیسا کہ چترال میں آگ کی تعظیم کی روایت سے اندازہ ہوتا ہے، لیکن ان بڑے مذاہب کے ماننے والوں کی معقول تعداد کا یہاں کسی زمانے میں رہنے کی کوئی شہادت دستیاب نہیں۔

چترال کا جنوبی حصہ آج سے کوئی تین سو سال پہلے کلاشہ بولنے والوں کا مسکن تھا۔ کلاشہ زبان خاص چترال سے اوپر بھی وادی لٹکوہ اور کوہ کے کچھ دیہات میں بھی بولی جاتی تھی۔ البتہ بیوڑی، عشیرت، دمیڑ اور گبرونگ کے علاقوں میں ان کی اپنی زبانیں رائج تھیں۔

ابتدائی مقامی ریاستیں

اسلام کی آمد سے پہلے اس علاقے میں کسی بڑی مرکزی حکومت کے وجود کی شہادت نہیں ملتی۔ تاہم چھوٹے چھوٹے مقامی حکمرانوں کا تذکرہ روایات میں ملتا ہے۔ ان میں کھو اور کلاش دونوں علاقوں میں ایسے حکمرانوں کے نام ملتے ہیں۔ جیسے کھو علاقے میں بہمن،سو ملک، یاری بیگ، اور کلاش علاقے میں بُل سنگھ، راجہ وائے وغیرہ۔ شاید ان کی حیثیت مقامی قبایلی سرداروں کی سی ہوگی۔

چترال پر بیرونی حملے

ارد گرد کی سلطنتوں نے ان علاقوں کی دشواری اور وسائل کی قلت کے سبب ان کو فتح کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ اگر کسی مہم جو نے ایسی کوشش کی بھی تو اسے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔

جہاں تک معلومات دستیاب ہیں، ان علاقوں کا باہر کی دنیا سے جو تھوڑا بہت تعلق رہا ہے وہ شمال کی جانب واقع علاقوں جیسے بدخشان، کاشغر، یارقند وغیرہ کے ذریعے ہوا ہے۔ جنوب کی طرف اگرچہ راستے نسبتاً اسان تھے ، لیکن اس سمت میں راستے سیاہ پوش کافروں اور پٹھانوں کے درمیان سے ہوکر گذرتے تھے اور اس وجہ سے نہایت پر خطر تھے۔ چناچہ تقریباً ساری تجارت شمال کی طرف ہوتی تھی۔ نیز جنوب میں واقع علاقوں سے وسط ایشیا کو جانے والے قافلے بھی چترال اور گلگت سے گذرتے تھے۔

اس علاقے پر پہلا بیرونی حملہ جس کے بارے میں دستاویزی شواہد دستیاب ہیں،747عیسوی میں یارکند کاشغر کی جانب سے ہوا، جب چینی جرنیل Kao Hsien-Chi نے اس علاقے کو فتح کیا ( Stein, E. 1921 :28-30) ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تبت نے اپنے اقتدار کو وسعت دے کر چترال تک پہنچایا تھا۔ اسی زمانے میں عرب مسلمان فوجیں بدخشان تک پہنچ چکی تھیں۔ چونکہ عربوں اور تبتیوں دونوں کا مقابلہ چین کی طاقتور سلطنت سے تھا اس لیے عربوں اور تبت کے درمیاں چین کے خلاف اتحاد قائم ہو گیا تھا۔ چینی فوجوں نے ان دونوں طاقتوں کے درمیاں رابطوں کو کاٹنے کے لیے کاشغر سے تیزی سے پیش قدمی کی اور واخان کے راستے درہ بروغیل پار کی اور درہ درکھوت پار کرکے تبتی فوجوں کی پیش قدمی روک دی۔ اگرچہ اس فوجی مہم کے نتیجے میں تبتیوں کو پیچھے دھکیلا گیا، تاہم جلد ہی عربوں کے ہاتھوں چینیوں کی شکست کے بعد چین کا عمل دخل کچھ عرصے کے لیے اس علاقے سے ختم ہوگیا ۔ اسی زمانے میں یہ سارا علاقہ جسے بلور کہا جاتا تھا، کچھ عرصے کے لیے تبت کے زیر اثر رہا ہوگا۔ تبتی اثرات کو ہم چترال کی مقامی روایات میں دیکھ سکتے ہیں(مرزا غفران 1921 ص 64) ۔

ممکن ہے اسی کشمکش کے دوران عربوں کی فوج کا کوئی دستہ چترال کے علاقے کے اندر آیا ہوگا، جس سے بہمن کوہستانی اور امیر حمزہ کی جنگوں کا افسانہ بن گیا ہو۔

بہمن کوہستانی کون تھا؟ ان کے بارے میں مقامی روایات کافی تفصیلی لیکن افسانوی قسم کی ہیں۔ بہمن کا مستقر مولکھو میں موژ گول کا مقام بتایا جاتا ہے جہاں کئی آثار ان سے منسوب ہیں۔ روایت کے مطابق امیر حمزہ مسلمان فوج کی قیادت کرتے ہوئے چترال میں داخل ہوا تو بہمن سے اس کا مقابلہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ مقامی افسانہ کسی طرح داستان امیر حمزہ میں شامل ہو گئی اور اس کے بعض نسخوں میں موجود ہے۔ چونکہ امیر حمزہ کا کردار اس روایت میں بالکل فرضی ہے اس لیے ہم اس ساری روایت کو داستانی ادب کے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ داستانیں بھی اکثر حقیقی کرداروں کے گرد بنی جاتی ہیں ۔ اس لیے بہمن کوہستانی کو افسانوی کہہ کر یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ بہمن کوستانی کے بارے اسی جیسی روایات بدخشان سے بھی نقل کی گئی ہیں۔

اس کے بعد کئی سو سال تک کے عرصے کے لیے تاریخ اس علاقے کے بارے میں خاموش ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران شمال سے مزید حملے ہوئے ہوں، لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔

مقامی روایات میں کچھ نام اور ان کے بارے میں حکایات ہمیں ملتی ہیں، جیسےسو ملک، یاری بیگ اور بیگل۔ لیکن ان کے زمانے کا تعین نہایت مشکل ہے۔ انہی ناموں کے بارے میں پڑوسی ممالک کی اپنی روایات ہیں۔ سوملک نام کے کئی حکمرانوں کا ذکر گلگت کی روایات میں ملتا ہے اور ان کو وہاں کے تراخان سلسلے میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان روایات کو جس طرح شاہ رئیس خان نے جمع کیا ہے اور ان سے احمد حسن دانی نے نقل کیا ہے، وہ نئی تاریخ چترال سے بھی زیادہ افسانوی ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کو مزید یوں الجھایا ہے کہ رئیس حکمرانوں کو بھی تراخان خاندان کا حصہ بنا دیا ہے (Dani 1991:164)۔ چنانچہ یہ بھی قطعیت کے ساتھ کہنا مشکل ہے کہ ان ناموں کا تعلق دراصل کہاں سے ہے، اور ان کا زمانہ کیا تھا۔ اس لیے یہ نام لوک کہانیوں کے لیے تو بہت عمدہ مواد فراہم کرتی ہیں لیکن تاریخی نقطہ نظر سے ان کی شاید ہی کوئی اہمیت بنتی ہے۔

مغل حملے (6)

مقامی روایات میں چترال پر مغلوں کے حملوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ بڈلف ان روایات کو نقل کرتے ہیں۔ مرزا غفران بھی مغل اور قلماق حملوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ نہایت محتاط مورخ ہیں اس لیے شک ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کونسے مغل تھے، اور آیا یہ چنگیز خان سے پہلے کے تھے یا بعد کے(غفران 1919:65)۔ نئی تاریخ چترال میں ان روایات کے زمانے کا تعین کردیا گیا ہے، اور ان کا تعلق چنگیز خان کے دور سے جوڑا گیا ہے (مرتضٰی 1961:39)۔ چترال میں مغلوں کا عمل دخل کافی طویل رہا ہوگا جبھی یہاں بہت سے قبائل مغل نام کے ہیں اور کئی دیہات کے نام مغلوں پر رکھے گئے ہیں۔

البتہ اب ہم جانتے ہیں کہ  1528عیسوی میں کاشغر کے چغتائی مغلوں نے اس علاقے پر حملہ کیا تھا۔ جب سلطان سعید خان کے حکم سے ایک لشکر شہزادہ رشید خان کی قیادت میں بلور کے کافروں سے جہاد کے لیے بھیجی گئی۔ اس لشکر میں مشہور کتاب تاریخ راشدی کے مصنف مرزا محمد حیدر دغلت(7) بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اس مہم کا تذکرہ کیا ہے۔ اس تذکرے میں جس علاقے کو بلور کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس میں چترال اور گلگت کے علاقے شامل ہیں۔ مصنف نے علاقے کے بارے میں جو معلومات دی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی مضبوط مرکزی حکومت موجود نہیں تھی اور مختلف قبایل آپس میں بر سر پیکار رہتے تھے۔

اس حملے کے بعد مزید مہمات اس علاقے کی طرف بھیجی گئیں۔ 1538 کے بعد سلطان رشید خان نے جو پہلے مہم میں خود شریک تھے ایک اور مہم اس علاقے کی بھیجی، جو کامیاب نہ ہو سکی۔ تاہم اگلی مہم کے دوران اس علاقے کو مکمل طور پر زیر کر لیا گیا۔اس کے بعد یہ علاقہ کافی عرصے تک کاشغر کی سلطنت کا باقاعدہ حصہ رہا۔ شاید یہی زمانہ تھا کہ جنوب کی طرف واقع علاقوں کے لوگ چترال کو قاشقار (کاشغر) کے نام سے پکارنے لگے، کیونکہ ان کے لیے اب کاشغر کی سلطنت لواری درے سے شروع ہوتی تھی۔

عبد اللہ خان (8)

کاشغر کے مغلوں میں سے ایک اور حکمران عبداللہ خان نے 1640 میں چترال پر حملے کی قیادت خود کی۔ اس حملے کے بارے میں مقامی روایات بھی موجود ہیں۔ عبداللہ خان شاید مستوج تک آیا تھااور واپسی پر اس نے یارخون لشٹ کے مقام پر ایک قلعے کی تعمیر کے لیے جگہ کی نشاندھی بھی کی تھی، اور اسی بنا پر یارخون لشٹ کو عبداللہ خانو لشٹ کہا جاتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عبداللہ خان کو اس علاقے کی طرف مزید توجہ دینے کا موقع نہیں ملا کیونکہ ان کے زمانے میں مغل سلطنت عدم استحکام کا شکار ہو چکی تھی۔ عبداللہ خان کی طرف ایک اشارہ بڈلف کے ہاں ملتا ہے ۔ وہ قلماق(9) حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ عبد اللہ خان ازبک کی وفات کے بعد ہوئے تھے۔ اس روایت میں بڈلف نے "ازبک" کا اضافہ یقیناً اپنی طرف سے کیا ہوگا(Biddul 1880:150) ۔ یہ عبد اللہ خان بھی یقیناً مغل عبد اللہ خان ہیں، جن کے زوال کے کچھ عرصہ بعد کاشغر پر مغلوں کی حکومت ختم ہو گئی اور قلماق قبیلوں کے زیر اثر آگیا تھا۔ مرزا غفران بھی عبد اللہ خان کا ذکر کرنے کے بعد اس بارے میں لاعلمی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کونسے عبداللہ خان تھے (غفران 1919:65)۔ Earl Stein بھی دیوان بیگی وفادار خان(10) اور عباد اللہ خان(11)حاکم یارخون کے حوالے سے ایسی روایات کو نقل کرتے ہیں (Stein 1921:32)۔ تاریخ کاشغر کی شہادت سے ان روایات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ عبد اللہ خان کاشغر کے مغل بادشاہ تھے(Holzwarth in Bashir & Israr ud Din 1996:124)۔ اس قدر وسیع پیمانے پر روایات کی موجودگی کے باوجود حیران کن طور پر مرزا غلام مرتضیٰ نے عبداللہ خان کو نظر انداز کیا ہے۔

عبد اللہ خان مغل کے علاوہ عبد اللہ خان اوزبک کے اس علاقے پر حملے کے بارے میں بھی کچھ روایات ملتی ہیں۔

تاج مغل

تاج مغل کا نام چترال کی مقامی روایات میں موجود نہیں۔ مرزا غفران نے اپنی تاریخ کے دونوں نسخوں میں اس کوئی ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی منشی عزیز الدین کے ہاں اس کا ذکر ملتا ہے۔ البتہ گلگتی روایات میں یہ نام بار بار آتا ہے۔ بڈلف نے اس کا ذکر کیا ہے اسی طرح غلام محمد کے ہاں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے۔ چترال کی حد تک پہلی دفعہ مرزا غلام مرتضیٰ اس کا ذکر کرتےہیں اور اس کے بعد ہر لکھنے والے نے انہی سے اس روایت کو لیا ہے۔ غلام مرتضیٰ اگرچہ اپنے مآخذ کا ذکر نہیں کرتے تاہم ایسا لگتا ہے کہ تاج مغل اور رئیسوں سے متعلق بعض روایات کو انہوں نے حشمت اللہ خان کی تاریخ جموں سے لیا ہے۔ اس بات کا امکان بھی ہے ان میں سے بعض روایات عبد الحمید خاور کے ذریعے ان کی کتاب تک پہنچی ہوں، جو ناصر الملک کے دور میں کچھ عرصہ چترال میں رہے اور تاریخ چترال پر کام میں ان کا ہاتھ بٹایا۔

تاج مغل کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ شمال کی جانب سے غالباً دوبار چترال آیا تھا۔ اس نے چترال اور گلگت میں دور دور تک علاقے فتح کیے۔ وہ مذہباً اسمٰعیلی تھا اور اس نے یہاں اس مذہب کے پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مرزا غلام مرتضیٰ تاج مغل اور رئیس خاندان کے بانی شاہ نادر کا چترال پر حملوں کا سال ایک ہی بتاتے ہیں (مرتضٰی 1961:28)۔ یہ بہت عجیب اتفاق لگتا ہے کہ ایک ہی علاقے سے دو حملہ اور ایک ہی سال کسی اور ملک میں داخل ہوں اور پہلے آنے والا دوسرے کا استقبال کرے حالانکہ وہ مذہبی طور پر اس کا مخالف بھی ہو۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب ملک کا حکمران کسی کسی کا استقبال کرے تو پھر جنگ و جدل اور فتوحات کا کیا مطلب۔ اس لیے شک پڑتا ہے کہ کہیں یہ دونوں نام یعنی تاج مغل اور شاہ نادر رئیس ایک ہی شخصیت کے تو نہیں؟

تاج مغل کا ذکر اب تک کی معلومات کے مطابق کسی بیرونی مآخذ میں نہیں ملتا۔ اس کا کاشغر کے مغلوں میں سے کسی کا دوسرا نام ہونا بھی بعید از قیاس ہے، کیونکہ کاشغر کے مغل سنی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ اسے ترک سردار بتاتے پیں، لیکن چترال اور گلگت میں ترک کے نام سے صرف مشرقی ترکستان والے ہی جانے جاتے ہیں۔ بخارا اور سمرقند کے ترکوں کا اس علاقے سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، اور نہ ہی بخارا وغیرہ میں اسمٰعیلی مذہب پایا جاتا ہے۔ شمال کی طرف صرف ایک علاقہ رہ جاتا ہے جہاں سے تاج مغل کا تعلق ممکن ہوسکتا ہے، ہے یعنی بدخشان۔ بدخشان میں اسٰمٰعیلی آبادی موجود ہے بلکہ کسی زمانے میں یہاں کے حکمران بھی اسمٰعیلی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے کم از کم ایک یعنی شاہ بابر کے چترال پر حملے اور یہاں حکومت کرنے کے بارے میں شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے تاج مغل اور شاہ بابر ایک ہی شخصیت کے دو نام ہوں؟ لیکن اس میں کئی دشواریاں ہیں۔ اول: ان دو ناموں میں کوئی مشابہت نظر نہیں آتی۔ دوم: روایات میں تاج مغل کے یہاں مقیم ہونے کا ذکر نہیں بلکہ واپس جانے کا ہے، جب کہ شاہ بابر نے یہاں کئی سال تک مقیم رہ کر حکومت کی۔ تاہم بدخشان میں کئی قبائل مغل کہلاتے ہیں، جیسے علی مغل، چپچی مغل، چرغی مغل اور یاکی مغل وغیرہ ۔ یہ سارے قبائل تاجک نہیں بلکہ ترک ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی قبائلی سردار جس کا نام تاج ہو، لوٹ مار کی عرض چترال کی طرف آیا ہو۔ اور اسکے ذریعے سے اسمٰعیلی مذہب کا تعارف یہاں ہوا ہو۔

شاہ بابر

تقریباً اسی زمانے میں چترال پر بدخشان کی طرف سے بھی حملے ہوئے۔ شاہ بابر جو بدخشان کا ایک مقامی حکمران تھا، ازبکوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں 1600 ء کے بعد کسی وقت بھاگ کر چترال آیا اور یہاں اپنی حکومت قائم کر لی(Raverty 1888:162)۔ چترال میں کسی مضبوط حکمران کی غیر موجودگی میں اسے یہاں پر حکومت قائم کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی ہوگی۔ شاہ بابر شاید موجودہ چترال شہر کو دارلحکومت بنانے والا پہلا مسلمان حکمران تھا۔ اس سے پہلے کاشغر کی طرف سے آنے والوں کا مستقر مستوج یا مولکھو ہی رہا ہوگا۔ شاہ بابر کے بارے میں بیرونی ذرائع کے علاوہ مقامی روایات بھی ہیں۔ مثلاً ریچ کے سادات کی ان سے رشتہ داری (مرتضٰی 1961) اور بابر آباد (بکر اباد) کی آباد کاری وغیرہ۔ شاہ بابر کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصلاً اسمٰعیلی تھا اور اسی نے چترال میں اسمٰعیلی مذہب کو متعارف کرایا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چترال پر حکومت کے دوران ازبکوں کے دباؤ کے تحت وہ سنی ہوگیا(Holzwarth in Bashir & Israr ud Din 1996:123) ۔ اگرچہ بیرونی ذرائع شاہ بابر کے نام کے ساتھ رئیس کا لاحقہ استعمال نہیں کرتے لیکن مقامی روایات میں ان کا نام شاہ بابر رئیس لیا جاتا ہے۔

رئیس خاندان

رئیس خاندان کے بارے میں چترال میں متنوع روایات پائی جاتی ہیں، لیکن اتنے وسیع نہیں جتنے گلگت میں۔ چترال میں زبانی روایات سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ سنگین علی اول کی اولاد کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے یہاں ایک خاندان رئیس کے نام سے یہاں حکومت کرتا تھا۔ حکومت کے خاتمے کے ساتھ رئیسوں کی نسل بھی اس ملک میں تقریباً ختم ہوگئی۔ دیگر خاندانوں کے شجرہ خوانوں کی کوئی خاص دلچسپی ان سے نہ تھی اور نہ نیا حکمران خاندان اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا، اس لیے ان حکمرانوں کے نام اجتماعی حافظے سے جلد اتر گئے۔ تاریخ چترال کے اولین مآخذ یعنی سیر کے شاہ نامے میں ان میں سے کسی کا نام نہیں۔ مرزا غفران کی تاریخ چترال کے پہلے نسخے میں بھی کوئی نام نہیں۔ تاہم مرزا غفران کی تاریخ کے دوسرے نسخے میں پہلی مرتبہ رئیس حکمرانوں کے نام ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض چند نام ہیں (غفران 1919:66) ۔ ان کے زمانے، مدت حکومت اور ان کے دور کے واقعات کے بارے میں غفران کچھ نہیں بتاتے۔ مرزا غفران کہتے ہیں کہ ان حکمرانوں کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں۔ بہت تلاش کے بعد چند نام ملے ہیں اور ہو سکتا ہے ان میں سے بھی بعض کا تعلق گلگت کے رئیسوں سے ہو۔ نیز وہ یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ رئیسوں کا دور حکومت نسبتاً مختصر رہا ہوگا ۔ دوسری طرف گلگتی روایات میں ان میں سے کئی نام گلگت کے حکمران کے طور پر ذکر ہوئے ہیں. رئیسوں کے بارے میں گلگتی روایات کافی افسانوی قسم کی ہیں اور ان کو گلگت کے مقامی تراخان خاندان ہی سے بتایا گیا ہے۔ جب کہ چترال کے رئیس خاندان کے بارے میں تمام شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بدخشان سے تعلق رکھتے تھے۔

پھر یہ سارے نام کیا ہیں؟ چترال اور گلگت کے رئیسوں کا کیا تعلق ہے؟ کیا ایک ہی خاندان اس سارے علاقے پر حکومت کرتا تھا؟ تمام دستیاب روایات کا جو مختلف ذرائع سے جائزہ لینے کے بعد صورت حال کچھ یوں سمجھ میں آتی ہے:

بدخشان سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے ایک سلسلے نے اس علاقے پر حکومت کی۔ انہوں نے اپنی طاقت کا مرکز بدخشان ہی میں رکھا اور اس علاقے میں ان کا اپنا کوئی قبیلہ نہیں تھا۔ شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں خود مختار نہیں تھے بلکہ غالباً یہ علاقہ بدخشان کے ماتحت تھا۔ بہت ممکن ہے کہ یہاں کے رئیس بدخشان کے حکمران خاندان کے ہی افراد ہوں۔ اس اس کی شہادت ہمیں چینی سلطنت کے ریکارڈ سے بھی ملتا ہے، بدخشان کے میر سلطان شاہ نے جب 63-1762 میں مستوج میں شاہ خوشامد ثانی کا محاصرہ کیا تو انہوں نے چینیوں کی مدد طلب کی۔ چینیوں کے دباو کے جواب میں سلطان شاہ نے شہنشاہ کی خدمت میں درخواست کی کہ چترال اس کی خاندانی وراثت ہے۔ جس پر شاہ خوشامد نے قبضہ کر رکھا ہے۔ نیز یہ کہ خوشامد نے اس کے بھائی کو قتل کردیا ہے۔ اس کے جواب میں چینی شہنشاہ کی طرف سے کہا گیا کہ چترال پر شاہ خوشامد نے نہیں تمہارے ماموں شاہ محمود (؟) نے قبضہ کر رکھا تھا اور شاہ خوشامد کے دادا نے صرف اپنا حق واپس لیا تھا (Parker 1897)۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وسط ایشیائی روایات میں لفظ رئیس حکمران کے لیے استعمال نہِیں ہوتا بلکہ یہ ایک نیم مذہبی اور نیم انتظامی عہدہ ہوتا تھا جس کے فرائض میں اشاعت مذہب شامل ہوتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ جب شاہ بابر نے ازبکوں کے دباؤ پر سنی مذہب اختیار کیا تو ازبکوں نے اسے رئیس کا لقب دے کر چترال وغیرہ میں اشاعت مذہب کے لیے مقرر کیا ہو۔ یاد رہے اُس زمانے میں چترال کی بیشتر آبادی غیر مسلم ہوگی۔ چنانچہ تصویر ایسی بنتی ہے کہ ایک بدخشانی سردار جو مذہباً اسمٰعیلی تھا، اس علاقے پر چترال پر قابض ہوکر اسمٰعیلی مذہب کی اشاعت کرنے لگتا ہے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ازبکوں کے دباؤ کی وجہ سے نہ صرف اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے بلکہ ازبکوں کی طرف سے نئے مذہب کی اشاعت پر مامور ہوجاتا ہے ۔

اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ شاہ نادر رئیس کون تھا، جسے غلام مرتضیٰ چترال میں رئیس خاندان کا بانی قرار دیتا ہے۔ گلگتی روایات میں یہ نام موجود نہیں بلکہ رئیس خاندان کا آغاز شاہ رئیس سے کیا جاتا ہے اور اسے چترال گلگت کے سارے علاقے کا حکمران بتایا گیا ہے ۔ بیرونی ذرائع سے ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ شاہ بابر کا بیٹا شاہ رئیس یاسین میں حکمران تھا اور جس کا اقتدار اردگرد کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ (Holzwarth in Bashir & Israr ud Din 1996:124)۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ یاسین کا یہی حکمران گلگت کے رئیسوں کا بانی ہو؟ یاد رہے کہ گلگتی روایات میں رئیس سلسلے کا بانی شاہ رئیس ہی کو کہا جاتا ہے، اور اسے گلگت اور چترال کے تمام علاقوں کا حکمران بتایا جاتا ہے۔ اب رہا شاہ نادر تو لگتا ایسا ہے کہ یہ شاہ ناصر کی بگڑی شکل ہے۔ شاہ ناصر رئیسوں میں سب سے طاقتور حکمران مانے جاتے ہیں۔ شاہ ناصر ایک حقیقی تاریخی شخصیت ہیں کیونکہ ان کے بیٹے شاہ محمود کی عطا کردہ سندیں موجود ہیں جن پر شاہ ناصر کا نام درج ہے۔ شاہ ناصر کے بارے میں مقامی خصوصاً کلاش روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چترال کے جنوبی حصے شاہ ناصر کے دور میں ہی پہلی مرتبہ رئیسوں کے قبضے میں آئے۔ اب تک دستاویزی شہادتوں سے صرف پانچ ناموں کی تصدیق ہوسکی ہے جن کے ساتھ رئیس کا لاحقہ استعمال ہوا ہے۔ شاہ بابر، شاہ رئیس، شاہ ناصر، شاہ محمود اور شاہ عبدالقادر۔ لیکن ان میں سے پہلے دو کا ذکر نئی تاریخ چترال میں نہیں ہے۔

رئیسوں کا زمانہ

مرزا غفران ایک محتاط مورخ ہیں۔ انہوں نے رئیس دور کا زمانہ متعین کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ تاہم مرتصیٰ نے نہ صرف ان کے لیے تقریباً تین سو سال کا طویل زمانہ مختص کیا ہے، بلکہ ہر حکمران کے لیے ٹھیک ٹھیک تاریخیں بھی دی ہیں۔ وہ اس دور کا اغاز 1320ء سے کرتے ہیں اور 1590ء میں محترم شاہ کٹور اول کے ہاتھوں اس کا اختتام بتایا ہے۔ لیکن جوں جوں دستاویزی شہادتیں دستیاب ہوتی جارہی ہیں، یہ تاریخیں یکسر غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ ان دریافتوں کے نتیجے میں ان ہم جانتے ہیں کہ رئیس دور اتنا طویل نہیں تھا جتنا اب تک سمجھا جاتا تھا، اور اس کا اختتام بھی اتنے قدیم زمانے کی بات نہیں۔

ہم تقریباً یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ شاہ بابر (چاہیں ہم انہیں رئیس خاندان میں سے سمجھیں یا نہیں) 1600 ء کے بعد کسی وقت چترال پر قابض ہوااور 1640ء میں وہ چترال پر حکومت کر رہا تھا۔ ان کا بیٹا شاہ رئیس 1650ء کے لگ بھگ میں یاسین پر حکومت کررہا تھا۔ شاہ بابر کے دور حکومت میں کاشغر کے مغلوں نے ایک اور حملہ عبداللہ خان کی قیادت میں کیا، تاہم اس حملے کے بعد بھی بابر چترال میں برسر اقتدار رہا۔ گمان غالب ہے کہ اس کے بعد وہ مغلوں کا باجگذار بن گیا ہو۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ خان نے بابر کے بیٹے شاہ رئیس کو یاسین کی حکومت بخش دی تھی جس نے بعد میں اپنا اقتدار گلگت تک بڑھا دیا۔ سترھویں صدی کے اواخر میں شاہ ناصر چترال پر حکومت کر رہا تھا جس نے چترال کے انتہائی جنوبی علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1710 ء کے بعد کسی وقت ان کے بیٹے شاہ محمود سے شاہ کٹور اول نے چترال کی حکومت چھینی۔ چند سال بعد رئیسوں نے دوبارہ حملہ کیا جس میں انہیں مشرقی ترکستان کے قلماق حکمرانوں کی مدد حاصل تھی۔ چترال پر رئیسوں کے دوبارہ قبضے اور محترم شاہ کی موت کے بعد کے بعد اس کا بیٹا سنگین علی ہندوستان کی طرف گیا(12)

رئیس دور کا خاتمہ

1740 ء میں شاہ محمود رئیس چترال پر حکومت کر رہا تھا، جس کے بعد کسی وقت سنگین علی ہندوستان سے واپس آیا اور چترال کے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ چترال دربار کے اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ1754ء اور 1757ء میں سنگین علی کا بھائی شاہ محمد شفیع چترال پر حکومت کر رہا تھا۔ 1761-62ء میں بدخشان کے میر سلطان شاہ نے چترال پر حملہ کیا جو رئیس اقتدار کی بحالی کی آخری کوشش تھی۔ نئی تاریخ چترال کے حساب سے یہ واقعہ 1700ء کے لگ بھگ کا تھا۔ (مرتضٰی 1961:55)، حالانکہ میر سلطان شاہ 1748ء اور 1765 ء کے درمیان بدخشان کے حکمران تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں جو دوراہ کے راستے سے ہوئی ہوگی، چترال میں شاہ محمد شفیع کو شکست ہوئی۔ سلطان شاہ چترال میں شاہ عبد القادر کو حکمران بنا کر مستوج کی طرف متوجہ ہوا جہاں خوشامد ثانی (خوش وقتیہ) حکمران تھا (Parker 1897)۔ اس کی تائید مقامی روایات کرتی ہیں، جن کو بڈلف نے بھی نقل کیا ہے (Biddulf 1888:152 )۔ (نئی تاریخ چترال کے مطابق اس وقت مستوج پر شاہ مردان قلی بیگ حکمران تھا اور وہی قلعے میں محصور ہوا) خوشامد قلعے میں کافی عرصے محصور رہا۔ اس نے یارقند میں چینیوں سے مدد طلب کی، جو 1759ء میں مشرقی ترکستان پر قابض ہو چکے تھے۔ بالاخر چینیوں کی مداخلت کے نتیجے میں سلطان شاہ محاصرہ اٹھا کر واپس چلا گیا۔ سلطان شاہ سے نجات دلانے پر شاہ خوشامد یقیناً چینی شہنشاہ کا شکرگزار ہوگا۔ چینی شاہی ریکارڈ میں خوشامد کی طرف سے کئی بار وفود کے تحائف کے ساتھ پیکنگ جانے کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے ایک ایلچی شاہ بیگ(13)کا نام بھی ان ذرائع سے معلوم ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چینیوں کی چترال اور قریبی علاقوں پر بالادستی کافی عرصے تک رہی۔ چترال میں چینی (خطائے) حملوں کے بارے میں روایات کا جو سلسلہ ہے، اس کا تعلق بھی اسی دور سے ہوگا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ اسی قسم کے رشتے شاہ خیر اللہ کے دور میں بھی جاری رہے۔

شمال سے رابطوں کا انقطاع

کٹور خاندان کے حکمرانوں کے رابطے شمال سے رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کی حکومت چترال کے زیرین علاقوں پر تھی، جو شمال کی بہ نسبت جنوب میں افغان علاقوں سے زیادہ قریب تھے۔ خود کٹور حکمرانوں کو طویل جلاوطنی انہی علاقوں میں گذارنی پڑی۔ سنگین علی ثانی ہندوستان میں رہا۔ محترم شاہ کٹور ثانی دیر میں کئی سال رہا، جس کے حوالے سے "چکیہ تنہ غریبی" کا ضرب المثل(14) وجود میں آ گیا ہے۔ شاہ خیر اللہ کے دور کے خاتمے کے بعد چترال کے یارکند، کاشغر یا براہ راست چین سے تعلقات کی کوئی شہادت دستیاب نہیں۔ البتہ جنوب میں دیر، باجوڑ، اسمار اور کابل سے تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا۔

کٹور خاندان کا ابتدائی دور اور نئی تاریخ چترال

کٹور دور سے پہلے کے ادوار کے بارے میں معلومات کی شدید کمی کا بہانہ تو کسی حد تک قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن کٹور دور کے بارے ایسا کوئی بہانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس دور کے بارے میں روایتی زبانی تاریخ دانوں اور شجرہ خوانوں کی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ اس کے باوجود مرزا غفران اور غلام مرتضیٰ دونوں نے اس دور کے واقعات کی زیادہ تفصیل نہیں دی ہے۔ غلام مرتضیٰ نے جو تفصیلات دی ہیں وہ بھی تضادات سے خالی نہیں۔ مثلاً :
۱۔ سنگین علی ثانی اپنے سفر ہندوستان کے ساٹھ سال بعد پہاڑوں پر شکار کھیلتے ہوئے قتل کردیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ہندوستان جاتے وقت نوعمر نہیں بلکہ پختہ عمر کے تھے، جیسا کہ ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ان کو تیس سال کا بھی مان لیا جائے تو نوے سال کی عمر میں ارکاری کے پہاڑوں میں شکار کرنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
۲۔ جس وقت شاہ افضل اول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جوان ہوکر اپنے پدری تحت کے دعوے دار ہوئے، اس وقت ان کے والد کو فوت ہوئے نوے سال گذر چکے تھے۔ اسی طرح شاہ فاضل اپنے والد کی وفات کے 125سال بعد میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ اسی لڑائی میں اتالیق محمد شکور(15) شمشیر زنی کے جوہر دکھاتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ بقول مصنف اس واقعے سے 125 سال پہلے سنگین علی کے ساتھ سفر ہندوستان پر جاچکے تھے۔
۳۔ نئی تاریخ چترال کے مطابق ارسون کی لڑائی جس میں خیر اللہ مارا گیا، 1782ء کو لڑی گئی۔ دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ وہ 1791ء میں زندہ اور برسر اقتدار تھا۔ غلام مرتضیٰ کے بقول خیر اللہ اپنے سسر اور دروش کے حاکم شاہ رضا(16) کو قتل کرنے کے بعد کئی سال تک حکومت کرتے رہے اور بالاخر 1782ء میں قتل کردیے گئے۔ حالانکہ  یہی شاہ رضا 1791ء میں دروش پر حکومت کر رہا تھا جب مغل بیگ(17) کافی عرصے تک اس کے پاس ٹھہرارہا (Raverty 1888:154) ۔
۴۔ محترم شاہ کٹور ثانی کا زمانہ اتنا پرانا نہیں۔ پھر بھی اس کے بارے نئی تاریخ چترال کے بیانات میں تضاد ہے۔ نئی تاریخ چترال کے مطابق ان کا دور حکومت تیس سال کا تھا لیکن جو تاریخیں ان کی تخت نشینی اور وفات کی دی گئی ہین ان کے مطابق ان کی حکومت کا عرصہ پچاس سال بنتا ہے۔
یہاں پر نئی تاریخ چترال کی چند تاریخوں کا تقابلہ دیگر ذرائع سے کیا جاتا ہے۔

واقعہ/ شخصیت نئی تاریخ چترال کے مطابق دیگر ذرائع
محترم شاہ کٹور اول کا اقتدار میں آنا 1590 ء مرزا محمد غفران اس واقعے کو تقریباً 1110ھ یعنی 1698ء کا واقعہ بتاتے ہیں. دوسرے ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ 1640ء میں شاہ بابر چترال پر حکومت کر رہا تھا۔ جب کہ اس سے دس سال بعد ان کا بیٹا شاہ رئیس یاسین اور دیگر علاقوں کا حاکم تھا۔ اس لیے محترم شاہ کا 1590ء میں چترال پر قبضہ کسی صورت درست نہیں ہو سکتا۔ مرزا غفران نے جس انداز میں اس کا ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی قرینہ ہوگا جس کی بنیاد پر وہ لکھتا ہے۔ Holzwarth اسے 1700ء کے بعد کا واقعہ بتاتے ہیں۔
شاہ محمود رئیس 1630ء کو دوبارہ چترال پر قابض ہوا۔ ان کی دی ہوئی سند کی تاریخ 1053ھ نقل کی گئی ہے۔ سند کی صحیح تاریخ 1153ھ یعنی 1740ء ہے۔ غالباً یہ سند اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے بعد لکھی گئی تھی۔
سنگین علی کی واپسی 1660ء سند کی رو سے شاہ محمود چترال میں 1740 تک بر سر اقتدار تھا، اس لیے سنگین علی کی واپسی اس کے بعد ہی ہوئی ہوگی۔ مرزا غفران اس واقعے کے لیے کوئی تاریخ تجویز نہیں کرتے۔ تاہم وہ سنگین علی کی وفات کو تقریباً 1742ء کا واقعہ بتاتے ہیں۔ صحیح تاریخ چند سال آگے ہو سکتی ہے۔
شاہ مردان قلی بیگ دارالسلطنت چترال میں ان کی حکمرانی کا تذکرہ موجود نہیں۔ نئی تاریخ چترال کے مطابق وہ میر سلطان شاہ کے حملے کے وقت مستوج کے حاکم تھے۔ اور وہی قلعہ مستوج میں محصور رہے۔ قدیم اسناد میں سے ایک شاہ مردان قلی بیگ کی عطا کردہ ہے۔ اس کے مطابق وہ دارالسلطنت چترال میں تخت نشین تھے۔ بیرونی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ میر سلطان شاہ اور شاہ عبد القادر رئیس چترال پر حملہ آور ہوئے تو مستوج میں شاہ خوشامد (خوشوقتیہ) حکمران تھے۔ ان ذرائع کے مطابق یہ زمانہ 1762ء کا تھا۔ شاہ عبدالقادر کی سند سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
شاہ محمد شفیع 1700-1721 ان کی دی ہوئی اسناد 1754ء اور 1758ء کی ہیں۔ نیز غلام مرتضٰی کے مطابق وہ سلطان شاہ کے حملے کے وقت اور اس کے بعد چترال کے حکمران تھے۔ اس حساب سے وہ 1763ء کے بعد بھی زندہ تھے۔
شاہ خیر اللہ 1782-1771ء مغل بیگ کی چشم دید شہادت کے مطابق خیر اللہ 1790ء میں بر سر اقتدار تھا۔ بلکہ اس کی طرف سے شاہ رضا بھی دروش پر حاکم تھا۔ خود مرتضٰی کے بقول شاہ رضا کو خیر اللہ نے اپنی موت سے کئی سال پہلے قتل کردیا تھا۔ اس لیے خیر اللہ کا قتل 1790ء کے بعد ہی ہوا ہو گا۔
شاہ نواز خان کا دوسرا دور 1782-1788ء چونکہ 1790ء میں خیر اللہ زندہ تھے اس لیے شاہ نواز خان ان کے قتل کے بعد ہی تخت نشین ہوئے ہوں گے۔
محترم شاہ کٹور ثانی 1788-1838ء یعنی پچاس سال۔ لیکن دوسری طرف وہ ان کا عرصہ حکومت کل تیس سال بتاتے ہیں۔ مرزا غفران بھی کٹور ثانی کا عرصہ حکومت تقریباً تیس سال بتاتے ہیں۔ لیکن وہ ان کی وفات کو 1256ھ یعنی 1840ء کا واقعہ بتاتے ہیں۔ اس حساب سے ان کی تخت نشینی کا زمانہ تقریباً1810 ء بنتا ہے۔ یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ مرزا غفران کا زمانہ شاہ کٹور ثانی سے زیادہ دور نہیں تھا اور اسے شاہ کٹور کے دور کے لوگون سے ملنے کے مواقع ملے ہوں گے۔ اس لیے ان کی بات میں زیادہ وزن ہے، بہ نسبت بعد کے لکھنے والوں کے۔

نوٹس

1۔ محمد سیر: ان کا زمانہ اٹھارویں صدی کا آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا تھا۔ وہ چترال کے گاوں شوگرام کے رہنے والے تھے۔ ان کا تعلق اشرافیہ سے تھا اور عالم فاضل آدمی تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ چترال سے باہر کافی گھومے پھرے بھی تھے۔ شاہنامہ کے علاوہ ان کا ایک فارسی دیوان بھی موجود ہے۔ کھوار میں ان کا ایک طویل گیت "یار من ہمین" اب بھی بہت مقبول ہے۔ اس گیت کے ساتھ محبت کی ایک کہانی بھی منسوب ہے۔

2۔ مرزا محمد غفران: چترال کے قریب کاری گاؤں کے باشندے تھے۔ پشاور میں تعلیم حاصل کی اور مہتر امان الملک کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ بہت جلد ان کو میر منشی کی حیثیت سے اہم مقام حاصل ہوگیا۔ وہ بعد کے حکمرانوں کے ساتھ بھی اسی حیثیت سے وابستہ رہے۔ تاریخ چترال کے علاوہ انہوں نے دینی علوم پر کئی کتابیں لکھیں۔ وہ فارسی میں شاعری بھی کرتے تھے۔

3۔ منشی عزیز الدین: ہندوستانی تھے۔ ۱۸۹۲ کے بعد انگریزی ملازمت کے سلسلے میں برسوں چترال مییں مقیم رہے۔ انہون نے چترال کی ایک مختصر تاریخ اردو میں لکھی جو  آگرے سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب بڑی حد تک مرزا محمد غفران کی پہلی فارسی تاریخ کا ترجمہ ہے۔

4۔ محمد ناصر الملک: مہتر شجاع الملک کے بڑے بیٹے تھے۔ ۱۹۳۶ میں ان کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھے۔ وہ ایک پڑے لکھےاور علم دوست حکمران تھے۔ ریاست کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، جن میں تعلیم کا فروع خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ تصنیف و تالیف کا مشعلہ رکھتے تھے۔ تاریخ چترال پر تحقیق کا آغاز کیا تھا لیکن 1943 میں ان کی بے وقت موت کے سبب یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔

5۔ چترال میں قدیم حکمرانون کی عطا کردہ سندات کئی خاندانوں میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے اکثر تک رسائی مشکل ہے۔ تاہم کچھ سندات نئی تاریخ چترال کی تصنیف سے پہلے منظر عام پر آچکی تھیں۔ کتاب کے مصنف نے اگر چہ ان اسناد کا ترجمہ کتاب میں شامل کیا ہے تاہم ان کی تاریخوں کو درست طریقے سے نقل نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی افادیت ختم ہو گئی ہے۔ مصنف کی یہ غلطی اس لیے ناقابل فہم ہے کہ ایک اور کتاب کے مسودے میں انہوں نے یہ تاریخیں بالکل درست نقل کی ہیں۔ نئی تاریخ چترال کی اس غلطی کے دور رس اثرات نکلے ہیں کیونکہ بعد کے سارے لکھنے والوں نے اسی کا اتباع کیا ہے۔ یہاں تک کہ Holzwarth بھی، جس نے پہلی مرتہ ان غلطیوں کی نشاندہی کی تھی، شاہ محمود کی سند کی تاریخ نئی تاریخ چترال سے نقل کرتے ہیں۔ وہ سند کی تاریخ کو 1053 ھ نقل کرتے ہیں جو اصل میں 1153ھ ہے۔ اس طرح Holzwarth کا بیانہ بھی تضاد کا شکار ہو گیا ہے۔

6۔ چغتائی مغل: چنگیز خان کی وسیع سلطنت اس کی موت کے بعد اس کے بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان کے دوسرے بیٹے چغتائی خان کو وہ تمام علاقے ملے جو بعد میں مشرقی اور مغربی ترکستان کہلائے۔ چودھویں صدی میں یہ سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی اور مشرقی حصہ مغلستان کہلانے لگا۔ اس علاقے میں جو آج کل چین کا صوبہ سنکیانگ کہلاتا ہے، مغلوں کا اقتدار 1680 تک برقرار رہا، جب خوجگان نے ان کا خاتمہ کیا۔

7 مرزا محمد حیدر دغلت کاشغر  کے مغل حکمرانوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔  بلور کی مہم میں وہ عبد الرشید خان کے ساتھ تھے۔ بعد میں وہ کاشغر چھوڑ کر ہندوستان چلے آئے، جہاں وہ ہمایوں بادشاہ کے ساتھ رہے۔ انہوں نے کشمیر پر دوبارہ قبضہ کرکے اسے ہندوستان کی مغل سلطنت میں شامل کر لیا۔ کشمیر میں قیام کے دوران ایک بغاوت کے دوران وہ مارے گئے۔ وہ ایک مورخ بھی تھے۔ ان تاریخ راشدی وسط ایشیا کی تاریخ کے اہم ترین مآخذ میں سے ایک ہے۔

8۔ عبد اللہ خان : کاشغر کے چغتائی مغل خاندان کے آخری دور کا ایک حکمران جو عبد الرشید خان کا پوتا تھا۔ وہ 1638 سے لے کر 1669 تک بر سر اقتدار رہا۔1669 میں اقدرار سے محروم ہونے کے بعد وہ ہندوستان چلا گیا جہاں اورنگزیب بادشاہ نے ان کا استقبال کیا اور انہیں حج پر بھجوا دیا .۔ حج سے واپسی پر 1675میں عبد اللہ خان ہندوستان میں ہی فوت ہوئے اور آگرے میں دفن ہوئے۔

9۔ قلماق: منگول قبائل کا وہ حصہ جو منگولیا کے جنوب مغرب میں رہتا تھا۔ ان کی بیشتر آبادی دریائے ایلی کی وادی میں آباد تھی۔ چغتائی مغلوں کے مشرقی ترکستان میں کمزور پڑنے کے بعد قلماق ایک ریاست کی شکل میں متحد ہونے لگے اور بالآخر زنگاریہ کی سلطنت وجود میں آئی۔ کاشغر کی مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد یہاں خواجگان کا اقتدار قائم ہو چکا تھا۔ خواجگان کی اندرونی لڑائیوں کے نتیجے میں قلماق حکمرانوں نے اس میں مداخلت کی اور کاشغر پر ان کی بالا دستی قائم ہو گئی۔ ان کا اقتدار اس علاقے میں 1758 تک باقی رہا۔

10۔ دیوان بیگی وفادار خان کا تعلق چترال کے میراثیے خاندان سے تھا۔ ریاست کے اندر دیوان بیگی اور وزارت کے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ اور ان کے بڑے بھائی وزیر عنایت خان مہتر چترال کے نمائندے کے طور پر پڑوسی ممالک میں جاتے رہے۔ جہاندیدہ اور تجربہ کار شخص تھے۔

11 ۔ عباد اللہ خان رضا خیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ یارخون کے حاکم رہے۔ Aurel Stein ترکستان کی اپنی مہم پر جاتے ہوئے ان کے گھر میں ٹھہرے اور مقامی روایات کے بارے میں ان سے معلومات حاصل کی۔

12۔ سنگین علی کا سفر ہندوستان: اس سفر کے بارے میں بھی داستانیں بن گئی ہیں۔ نئی تاریخ چترال اسے شاہ جہاں کے آخری دور کا واقعہ بتاتے ہیں۔ شاید ایسی روایت پہلے بھی موجود تھی اور مرزا غفران اس کا ذکر کرکے اسے ناممکن بتاتے ہیں۔ موجودہ معلومات کے مطابق یہ سفر 1720 کے بعد کسی وقت کا واقعہ ہے۔ یعنی شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں۔ قرائن سے بھی لگتا ہے کہ اُس زمانے میں بادشاہ مالی مدد سے زیادہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ ورنہ عالمگیر جیسے بادشاہوں کا زمانہ ہوتا تو وہ فوجی مہم روانہ کرنے میں پس و پیش نہ کرتے۔ نیز یہ کہ اُس دور میں ایسا واقعہ ہوتا تو یہ وقائع نویسوں اور مورخین کی نظر سے پوشیدہ نہ رہتا۔

13۔ شاہ بیگ: چینی شاہی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ خوشامد ثانی کی طرف سے خراج لے کر پیکنگ کے دربار جانے والے ایلچی کا نام شاہ بیگ تھا۔ یہ غالباً وہی شاہ بیگ ہے جس کی اولاد شاہ بیگے قبیلےکے نام سے لٹکوہ میں موجود ہے۔

14۔ چکیہ تن: دیر سے چند میل جنوب کی طرف ایک مقام جہاں کوہستان اور براول سے آنے والے دریا دیر کے دریا سے ملتے ہیں۔ محترم شاہ کٹور ثانی شاہ خیر اللہ کے ہاتھوں جلاوطن ہوکر کئی سال یہاں ٹھہرے۔ ان کے کچھ ساتھی بھی ان کے ساتھ تھے جنہوں نے ان کے ساتھ ناقابل بیان مصائب جھیلے اور وفاداری کی مثال بن گئے۔

15۔ اتالیغ محمد شکور: موڑکھو کے حاتم بیگے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان روایتی طور پر اتالیغ کا عہدہ رکھتا تھا۔ ۱۷۳۰ کے لگ بھگ جب کٹور ثانی کے ہاتھ سے حکومت رئیسوں نے واپس چھین لی تو ان کا بیٹا سنگین علی ہندوستان چلا گیا۔ اس سفر میں محمد شکور بھی ان کے ساتھ تھے۔ وہ 1770 کی دھائی کی خانہ جنگی میں محترم شاہ ثانی کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ وہ ایک عالم و فاضل شخص تھے۔ ان کا دیوان موجود ہے جس میں فارسی کے ساتھ کچھ کھوار کلام بھی پایا جاتا ہے۔ کھوار زبان کو تحریر میں لانے کی یہ اولین کوشش تھی۔

16۔ شاہ رضا: یہ رضا قبیلے سے سے تعلق رکھتے تھے۔ خیر اللہ خوشوقتیہ کی حکمرانی کے دور میں علاقہ دروش کے نہایت طاقتور حاکم تھے۔ عام طور پر بادشاہ کہلاتے تھے۔ وہ لکھے پڑھے اور جہاندیدہ شخص تھے۔ اپنے آخری زمانے میں خیر اللہ نے شک کی بنا پر اسے مع خاندان کے قتل کردیا۔

17۔ مغل بیگ: یہ شاید افغان تھے۔ انگریزوں کی طرف سے سروے کی عرض سے دوردراز کے علاقوں میں سفر کیا۔ اس سلسلے میں وہ 1798 اور 1791 کے درمیاں چترال آئے۔ دروش میں وہ شاہ رضا کے پاس ٹھہرے اور ان سے بہت سی معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے اپنے سفر کے تجربات کو "سیر البلاد" کے نام سے لکھا۔ اس کتاب کے اقتباسات کو Raverty نے نقل کیا ہے ۔

اسی موضوع پر مزید پڑھیے

1. چترال میں اسلام کی آمد
2. ریاست چترال میں وزیر کے عہدے کی تاریخ
3. چترال کے ریاستی دور کا عدالتی نظام
4. History of Chitral- An outline
5. Shah Babur Raees, A Forgotten Ruler of Chitral



کتابیات

  1. مرزا محمد غفرا ن ۱۸۹۳۔ تاریخ چترال فارسی قلمی نسخہ
  2. مرزا محمد غفران ۱۹۲۱۔ تاریخ چترال فارسی طبع شدہ نامعلوم مقام۔
  3. مرزا غلام مرتضٰی ۱۹۶۱۔ نئی تاریخ چترال، پشاور، ۱۹۶۱۔
  4. منشی عزیر الدین ۱۸۹۷۔ تاریخ چترال۔
  5. Adamec, L.W. 1972. Historical and Political Gazetteer of Afghanistan V.I. Graz, 1972.
  6. Ali I., Batt, C.M., Coningham, R.A.E. & Young, R.L. 2002. New Exploration in the Chitral Valley, Pakistan: An Extension of the Gandharan Grave Culture. Antiquity 76(293): 647-653.
  7. Bashir, E & Israr ud Din,eds. 1996. Proceedings of the Second International Hindu Kush Conference. Karachi.
  8. Biddulf, J. 1880. Tribes of the Hindoo Koosh. Reprint Graz, 1971.
  9. Cacopardo, A.M. & Cacopardo, A. S. Gates of Peristan. Rome, 2001.
  10. Dani, A.H. 1991. History of Northern Areas of Pakistan. Islamabad.
  11. Ghulam Muhammad. 1905. Festivals and Folklore of Gilgit. Reprint, Islamabad, 1980.
  12. Mirza Muhammad Haidar Daghlat (1895) Tarikh-i- Rashidi. An English Version by E. Denidon Ross. London.
  13. Parker, E.H. 1897. A Few Chinese Observations About Chitral, Hunza, Etc. The China Review 22787-789.
  14. Raverty, H.G. Notes on Afghanistan and Parts of Baluchistan. Extracted from the Writings of Little Known Afghan and Tajik Historians. London. Reprint Lahore، 2001. Excerpts relating to Chitral are available here
  15. Stein, Aurel. 1921. Serindia Vol.I. Oxford, 1921.
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com