Back

کتاب "نئی تاریخ چترال" کا ایک تنقیدی جائزہ

فخر الدین آخوند زادہ
21.01.2021
akhunzada

مرزا غلام مرتضےٰ کی تصنیف "نئی تاریخ چترال" علاقے کی تاریخ پر ایک اہم کتاب ہے۔ اردو زبان میں چترال کی تاریخ اور یہاں بسنے والے گروہوں پر یہ ایک مفصل دستاویز ہے۔ اس کا بنیادی مواد مرزا محمد غفران کی فارسی تاریخ سے لیا گیا ہے اور اس پر اضافے کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب اس علاقے پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک اہم حوالے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی یہ حیثیت آئیندہ بھی رہے گی۔

اگرچہ کتاب بیان کی گئی کچھ معلومات اور واقعات کی صداقت پر بہت سے لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں جو پوری کتاب کو حرف بحرف درست تسلیم کرتے ہیں اور اس پر کسی تنقید یا تجزئے کو برداشت نہیں کرتے۔ آج کے دور میں ہر تحقیقی کام یا تحقیق کی بنیاد پر لکھی گئی کتاب کو تحقیق کے مسلمہ سائنسی اصولوں پر پرکھا جاتاہے۔ تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نئی تاریخ چترال کی بعض معلومات درست ہیں جبکہ بہت سی دوسری معلومات کو کتاب میں شامل کرتے وقت تحقیقی اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔

سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق میں معلومات حاصل کرتے وقت تسلیم شدہ طریقہ تحقیق پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر معلومات حاصل کرتے وقت اس طریقہ کار کو بروئے کار نہ لایا جائے تو حاصل ہونے والی یا اخذ کردہ معلومات اور ان کے نتائج پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور دوسرے محقق لوگ اسے درست تسلیم نہیں کرتے۔ تحقیق کے لیے جو طریقے وضع کیے گئے ہیں ان میں ایک طریقہ شمولیتی مشاہدہ (participant observation) ہے۔ یعنی معلومات دینے والا شخص خود اس جگہ موجود ہوتا ہے جس کے بارے میں وہ معلومات دے رہا ہے۔ اس طریقہ کار میں ذاتی پیشہ ورانہ تجربہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جو واقعہ معلومات دینے والا شخص بیان کررہا ہے وہ اس کو خود قریب سے دیکھا ہے۔ دوسرا طریقہ بالمشافہ بات چیت (Interview) کاہے۔ اس طریقے میں معلومات لینے والا شخص کسی ایسے شخص سے معلومات لیتا ہے کہ معلومات دینےوالا (انٹر ویو دینے والا) شخص خود اس جگہ موجود تھا جہاں کوئی واقعہ ہوا۔ یہ انٹرویو دینے والے شخص کا ذاتی تجربہ ہے اور وہ واقع کو قریب سے دیکھا ہوا ہے اور بغییر کسی تبدیلی اور اضافہ کے معلومات محقق کو منتقل کرتا ہے۔ اس موقع پر معلومات لینے والا مزید سوالات کرکے اپنے شکوک و شہبات کو رفع کر سکتا ہے۔ تیسرا طریقہ کار سوال نامہ (questionnaire) کا ہے۔ معلومات لینے والا شخص ایک بڑے گروہ میں سوال نامے تقسیم کرتا ہے اور حاصل ہونے والے جوابات میں سے اکثریت کی رائے کا تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ چوتھا طریقہ فوکس گروپ ڈسکشن کا ہے۔ اس میں معلومات لینے والا شخص متعلقہ فیلڈ کے ماہرچند لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے بحث کرواتا ہے اور ان کے بحث و مباحثہ کی بنیاد پر ایک متفقہ نتیجے پر پہنچتا ہے۔ آخری طریقہ ادبی جائزہ (Literature review) کا ہے۔ اس طریقہ کار میں معلومات حاصل کرنے والا اپنے تحقیقی موضوع سے متعلق مختلف مستند کتابوں اور مقالوں کا مطالعہ کرتا ہے اور ان کتابوں کے حوالے سے پہلے سے دی گئی معلومات کو اپنے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر قبول یا رد کرتا ہے۔ وہ اپنی تحقیق میں جو اہم تاریخی واقعات بیان کرتا ہے ان کے حوالے پہلے سے لکھی گئی کتابوں یا مقالوں سے اخذ کرتا ہے۔ تحقیق کی دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی کتاب، مضمون، مقالہ، لیکچر یا عام گفتگو میں معلومات دیتے وقت اوپر بیان کیے گئے طریقہ کار سے نہ گزرا ہو تو اس کی فراہم یا اخذ کردہ معلومات پر سوال اٹھایا جاتاہے۔

"

نئی تاریخ چترال" میں بہت سی معلومات وہ ہیں جو مرزا غلام مرتضےٰ نے خود اپنے مشاہدات کے ذریعے حاصل کیں یا اپنے والد کی تاریخ سے نقل کیں، اور ان کے والد ان کے عینی شاہد تھے۔ یا پھر کسی اور عینی شاہد نے اسے بتائی۔ ایسی معلومات کو آسانی سے قبول کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ان کے خلاف کوئی دستاویزی شواہد موجود نہ ہو۔ مثلاً افضل الملک کا اپنے بھائیوں کا قتل کروانا، یا محاسرہ چترال کے واقعات۔ ان مواقع پر مرزا محمد عفران خود موجود تھے، اس لیے ان کی شہادت قوی ہے۔ یا ڈیورنڈ لائن کے نتیجے میں چترال اور افغانستان کے درمیان مستقل حدبندی کا قیام۔ اگرچہ اس میں وہ خود موجود نہیں تھا لیکن اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے انہیں اُن لوگوں تک رسائی حاصل تھی جو اس بارے میں جانتے تھے ۔ لہذا غلام مرتضےٰ اور ان کے والد کی زندگی یا ان سے چند سال پہلے کے واقعات پر ان کی رائے کو آسانی سے قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کتاب میں بیان کردہ قدیم روایات کے معاملے میں ہمارا رویہ دوسرا ہونا چاہیے۔ اس قسم کی معلومات ان کے دور تک بے شمار دوسرے لوگوں کی زبانی منتقل ہوتی ہوئی پہنچی ہیں۔ ان معلومات کو شامل کرتے وقت مستند حوالہ (لٹریچر ریویو) بھی کتاب میں نہیں ہیں اور اب تک محققین کو کوئی ایسا مستند مواد بھی نہیں ملا جس کی بنیاد پر وہ یہ کہہ سکتے ہوں کہ یہ معلومات وہاں سے اخذ کی گئی ہیں۔ لہذا یہ تمام معلومات روایات(tradition) کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کو صحیح اور غلط ثابت کرنے کے لیے تحقیقی و تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ اگرچہ زبانی روایات بھی اکثر ایک سچے واقعہ سےشروع ہوتی ہیں، لیکن زبانی طور پر سینہ بہ سینہ ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتے ہوئے منتقل کرنے والا شخص اس میں کچھ نہ کچھ اپنی طرف سے اضافہ اور ردوبدل کرتا رہتا ہے۔ یوں ان روایات میں حقیقت کا عنصر وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔

ہماری تاریخی کتب میں جگہ پانے والے ان معلومات پر، جن کی بنیاد فقط زبانی روایات ہیں، نہ صرف چترال کے اندر لوگ شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے بلکہ یورپ کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے ہمارے علاقے کے تاریخ کے ماہر ولفگانگ ہولزور (Wolfgang Holzwarth اور البرتو کاکوپرڈو(Albarto Cacopardo) وغیرہ بھی اپنے تحققی مقالوں میں سوالات اٹھاتے ہیں۔

مجھے اپنی ایک لسانیاتی تحقیقات کے لیے چترال کی کئی ایک روایات کو پرکھنے کا موقع ملا ہے۔ مدک لشٹ کے لوگوں کے پاس چترال آنے کے بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں، بلکہ سب زبانی روایات ہیں۔ ان میں ایک روایت کو منیجر شیر نذیر صاحب نے ۱۹۷۰ میں قلم بند کیا تھا، جو اُنہیں اُن کی برادری کے ایک بزرگ شخص نے سنائی تھی۔ ان روایات کے مطابق مدک لشٹی لوگ محترم شاہ (کٹور ثانی) کے دور میں چترال آئے تھے ۔ میں نے ان روایات کو دوسرے مواد سے موازنہ کرنے کے بعد یہ نتجہ اخذ کیا کہ مدک لشٹ کے لوگوں کو محترم شاہ لایا تو تھا، لیکن اپنے دور حکومت میں نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی مہتر شاہ نواز خان کے پہلے دور میں۔ شاہ نواز کے دونوں ادوار کے درمیان کچھ عرصے کا وقفہ ہے۔ اس مدت میں خیراللہ مہتر کٹور حکمرانوں کو بیدخل کرکے خود چترال کے حکمران بنے تھے۔ شاہ نواز کے دونوں ادوار میں محترم شاہ کے پاس اہم عہدے تھے۔ اس روایا ت کو زبانی ایک دوسرے کو منتقلی میں "محترم شاہ لے آیا تھا" تبدیل ہوکر " محترم شاہ کے دور میں آئے تھے" بن گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شاہ نواز کے پہلے دور اور محترم شاہ کے دور میں دو عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہے۔ یہ روایت ڈھائی سو سال سے عرصہ پہلے کا ہے ۔ جب دو ڈھائی سو سال میں روایت کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے تو ہزار بارہ سو سال میں اس کا کیا حال ہوگا۔ نئی تاریخ چترال میں شامل کچھ مواد بارہویں صدی کا بتایا جاتا ہے۔ اس طرح تاریخ چترال میں درج ہے کہ کٹور خاندان کے پہلا حکمران شاہ کٹور( اول) کو کلکٹک (میرے گاؤں) کے کلاشوں نے ریئس حکمرانوں کے حکم پر قتل کیا ۔ ہمارے گاؤں کی روایات کے مطابق یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہاں کے مکینوں نے شاہ کٹور کو ایک حملہ آور سمجھ کر غلط فہمی سے قتل کیا۔ گاؤں والوں کی بات میں تھوڑا وزن اس لیے ہے کہ کلاش لوگ ہر وقت دفاعی پوزیشن میں ہوتے تھے۔ ان کے ہاں کوئی مرکزی حکمران یا حکمرانی کا نظام نہیں تھا ہر گاؤں کا اپنا سردار اور دفاعی نظام ہوتا تھا۔ یعنی کہ ہر وقت لڑنے اور مارنے کے لیے تیار تھے۔ دوسری بات یہ کہ شاہ کٹور کا یہاں ٹھہرنے کے بارے میں دونوں طرف سے روایات خاموش ہیں۔ یعنی ان کو یہاں سے گزرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے یہاں سے گزرنے کی خبر پچاس کلومیٹر دور دنین (جہاں رئیس حکمراں رہتے تھے)، اتنی جلدی کیسے پہنچی اور وہاں سے ان کو قتل کرنے کا حکم کیسے واپس کلکٹک پہنچا۔ اس کے علاوہ ریئس اور کلاش خود ایک دوسرے کےحریف تھے تو پھر وہ اس معاملے میِں کس طرح ایک ہوئے۔ یہ بھی ممکن ہے شاہ کٹور چترال پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے کلاش علاقوں کو پہلے قبضے میں لینا چاہتا ہو، کیونکہ کہ ریئس کے مقابلے میں کلاش منقسم اور کمزور تھے۔ تاریخ چترال میں درج صرف یہ بات صحیح ہے کہ شاہ کٹور کو کلکٹک میں قتل کیا گیا لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ کسی سازش یا کسی کے حکم پر قتل کیا گیا۔ اسی گاؤں میں بابا اخوند (دیر) کے ایک مرید کا قتل بھی اس طرح ہوا تھا۔ جسے علاقے کے مکینوں نے اپنے لیے خطرہ سمجھ کر قتل کیا تھا۔

خلاصہ: کتاب "نئی تاریخ چترال" میں درج بیشترمعلومات درست ہیں کیونکہ وہ غلام مرتضے یا ان کے والد کے اپنے دور کی ہیں یا ان لوگوں کے دور کے جن کی زندگی میں کتاب میں درج واقعات رونما ہوئے اور مرزا نے ان تک رسائی کر کے یہ معلومات حاصل کیں ۔ جبکہ وہ معلومات جو انہوں نے قدیم روایات سے اخذ کرکے کتاب میں شامل کی ہیں، کا مزید تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ، یہ معلومات کسی مستند ذرائع کے نہیں ہیں ان کو حتمی یا مستند نہیں مانا جا سکتا، کیونکہ ان معلومات کو کتاب کا حصہ بناتے وقت تحقیق کے مسلمہ طریقہ کار کو اپنایا نہیں گیا اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ صرف روایات کی بنیاد پر ایک مستند تاریخ تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ خصوصاً زیادہ پرانی روایات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔

The writer is cultural researcher, author and Executive Director at Forum for Language Initiatives (FLI), Islamabad
He can be accessed at facebook.com/fakhruddin.akhunzada

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com