childrens' story:چڑیا کا موتی ..Mumtaz Hussain <= BACK

چڑیا کا موتی

کھوار لوک ادب سے تلاش و ترجمہ : ممتاز حسین

ایک چڑیا جھاڑی کی پھننگ پر بیٹھی موتی پرو رہی تھی۔ اچانک ایک موتی پھسل کرجھاڑی کے اندر گر گیا۔ چڑیا نے موتی نکالنے کی کوشش کی لیکن جھاڑی اتنی گھنی تھی کہ وہ اس کے اندر نہیں جاسکی۔ جب چڑیا کو اس کا موتی نہیں ملا تو اس نے جھاڑی سے درخواست کی کہ وہ اپنی ایک ٹہنی جھکا کر اس کا موتی ڈھونڈ دے دے۔

’’واہ رے! ٹہنی جھکا کے۔ گویا میں تمہارے چھوٹے سے موتی کی خاطر اپنی سیدھی ٹہنی ٹیڑھی کردوں‘‘ جھاڑی نے کہا۔ ننھی چیڑیا کو جھاڑی پر بڑا غصہ آیا۔ پاس ایک گھر میں آگ جل رہی تھی اور چمنی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ چڑیا اُڑ کر چمنی پر جا بیٹھی اور آگ سے بولی’’دیکھیے آگ جی! جھاڑی میرا موتی اٹھا کے نہیں دے رہی۔ ذرا اس کو جلا دے‘‘ ’’میں کیوں گیلی جھاڑیاں جلانے لگی۔ مجھے خشک لکڑیوں کی کوئی کمی ہے کیا؟ " آگ نے کہا۔

پاس ہی چھوٹی سی نہر میں صاف ستھرا پانی بہ رہا تھا۔ چڑیا نے پانی سے درخواست کی کہ وہ آگ کو بجھا دے۔پانی نے کہا ’’ مگر میں تو صبح سویرے پھولوں کے باغ کوسیراب کرنے جا رہا ہوں۔ اب کیا میں پھولوں کو چھوڑ کر آگ میں گھس جاؤں؟"

ادھر کھیت میں ایک بیل گھاس چر رہا تھا۔ چڑیا بیل سے بولی ’’بیل جی! یہ پانی میرا کہا نہیں مان رہا۔ ذرا اس کو پی لے۔ پھر دیکھتا ہوں، یہ کیسے پھولوں کے باغ تک جاتا ہے‘‘ بیل نے کہا ’’میں تمہارے کہنے پر پانی تو پی لیتا، لیکن میِں رات بھر بھوکا،ابھی ابھی ناشتہ کرنے نکلا ہوں۔ اب میں خالی پیٹ اتنا سارا پانی کیسے پی لوں‘‘

اُدھر پہاڑی کی کھوہ میں ایک بھیڑیا دبکا بیٹھا تھا۔ چڑیا اڑ کربھیڑیا کے پاس گئی اور بولی ’’ پہاڑی بابا! یہ بیل میرا کہا نہیں مانتا۔ تو ذرا اس کا ناشتہ تو کر۔ بڑا آ یا ناشتہ کرنے والا‘‘ ’’ننھی چیڑیا! تمہارا غصہ اپنی جگہہ‘‘ بھیڑیا بولا۔’’لیکن میں اس انتظار میں بیٹھا ہوں کہ گڈریا اپنی بھیڑیں چرانے کے لیے ادھر لے آئے۔ میں نے ایک موٹے تازے دنبے کو تاڑ رکھا ہے۔ اب میں تمہاری خاطر موٹے دنبے کو چھوڑ کر اس بیل کا سخت گوشت کھانے سے تورہا‘‘

اتنے میں ایک شکاری وہاں سے گذرا۔ توڑے دار بندوق کندھے پر اور کمر کے ساتھ کمر کیسہ [چمڑے کا تھیلہ جس میں بندوق کا گولہ بارود رکھا جاتا ہے] بندھا ہوا تھا۔ چڑیا شکاری کو دیکھ کر شور مچانے لگی ’’آرے آرے شکاری۔۔۔ وہ دیکھو! پہاڑی کی کھوہ میں بھیڑیا چھپا بیٹھا ہے، اسے گولی مار دو" "چھوڑو بھی، بی چڑیا ۔ میں اوپر پہاڑوں پر بڑے شکار (مارخوروغیرہ) کی تلاش میں جارہا ہوں۔شکاری نے بے زاری سے کہا۔’’ کمر کیسے میں تھوڑا سا گولہ بارود ہے۔ اسے کیوں حرام جانور پر ضائع کروں‘‘

شکاری چلا گیا تو چڑیا چوہے کے پاس گئی اور بولی ’’آرے چوہے بھائی! زرا اس شکاری کے کمر کیسے کو کتر کر اس میں سوراخ کردے، تاکہ اس کا گولہ بارود گر جائے، پھر دیکھتے ہیں، یہ کیسے بڑا شکار مار کر لاتا ہے‘‘ "مگر میں تو ابھی باورچی خانے سے قسم قسم کی چیزیں کھا کر نکلا ہوں۔ اب اس خشک چمڑے کو کیوں کتروں"

اتنے میں ایک بلی دبے پاؤں چلتی ہوئی وہاں سے گذری۔ چڑیا نے بلی کو پکارا ’’آرے بی بلی! وہ رہا چوہا۔ لپک کر پکڑ لو‘‘ ’’میں نے تو ابھی دادی اماں کی کوٹھڑی میں گھس کر خوب دودھ ملائی اُڑا ئی ہے۔ اب کون چوہے کے پیچھے بھاگتا پھرے‘‘ دادی اماں گھر کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔چڑیا نے پکارا ’’دادی اماں! وہ دیکھو۔ بلی تمہارا دودھ پی کے نکلی ہے۔زرا پکڑ کر ایک دو دھول تو جمادے‘‘ دادی اماں بولی ’’دودھ تو ضائع ہو گیا۔ اب کیا بلی کے پیچھے بھاگ کر وقت بھی ضائع کر دوں؟ اتنی دیر میں تھوڑا سا اون کیوں نہ کات دوں‘‘

جب چڑیا ہر طرف سے مایو س ہوگئی تو اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دعا مانگی ’’اے خدا ! ان میں سے کسی نے میری مدد نہ کی۔ اب تو ہی میری مدد کر اور ہوا کو حکم دے کہ وہ دادی اماں کا اون اڑا لے جائے‘‘

اتنے میں ہوا کا ایک زور کا جھونکا آیا اور لگا دادی اماں کے ا ون کے گالے اڑا نے۔

دادی اماں بلی کا پکڑنے کو لپکیں۔بلی چوہے کے پیچھے دوڑی۔ چوہا شکاری کا کمر کیسہ کترنے کو چلی۔ شکاری نے بندوق کا فلیتہ سلگا کر بھیڑیے کو نشانے پر لیا۔ بھیڑیا بیل پر حملہ کرنے لگا۔ بیل بھی ناشتہ بھول کر پانی کی طرف چلا۔ نہر کا پانی رخ بدل کر آگ کی طرف بڑھا۔ آگ کے شعلے جھاڑی کی طرف لپکنے لگے۔آخر جھاڑی نے اپنی ٹہنی جھکائی اور موتی اٹھا کر چڑیا کو دے دی۔

چڑیا اپنا موتی پا کر بہت خوش ہوئی اور چہچہاتے ہوئے اڑ گئی۔

English Translation of the Story
by Rumana Hussain

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com