کھوار لوک ادب سے ترجمہ: پن چکی میں۔۔۔ <= BACK

پن چکی میں۔۔۔

کھوار لوک ادب سے تلاش و ترجمہ : ممتاز حسین

ایک بے وقوف شخص درخت کی شاخ پر بیٹھا، اسی شاخ کو نیچے سے کلہاڑی سے کاٹ رہا تھا۔ درخت کے نیچے سے ایک راہگیر گذرا۔ اس جب یہ دیکھا تو حیران ہوکر بولا " آرے آرے ، تو نیچے گر جائے گا" 'تجھے کس نے بتایا کہ میں گر جاوں گا۔ کیا تمہیں غیب کا علم ہے؟ "ہاں اتنا غیب کا علم تو ہے کہ جو وہی شاخ کاٹے گا ،جس پر بیٹھا ہو، وہ ضرور گرے گا" "جا جا۔۔۔ بڑا آیا ، پہنچا ہوا بزرگ" اُوپر والے نے جواب دیا۔ راہگیر ہنستا ہوا اپنی راہ چلا۔

تھوڑی دیر بعد شاخ کٹ گئی اور وہ شخص نیچے آرہا۔ وہ کپڑے جھاڑ کر اٹھا اور راہگیر کے پیچھے بھاگا۔ راہگیر کو پکڑ کر بے وقوف نے کہا "آپ واقعی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ مجھ سے بہت بڑی گستاخی سرزد ہوئی ہے۔ آپ مجھے معاف کریں" راہگیر نے بہت کہا کہ وہ کوئی بزرگ نہیں، لیکن بے وقوف نہیں مانا۔ آخر تنگ آکر راہگیر نے کہا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ "مجھے صرف یہ بتادیں کہ میں کب مروں گا؟" بے وقوف نے سوال کیا۔ راہگیر نے نے اس کے ساتھ مذاق کرنے کا سوچا اور کچھ سوچ کر بولا "جس دن تم نے پن چکی کے اندر قدم رکھا، وہ تمہاری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ اور ہاں یاد رکھنا، اگر تم نے کسی یہ بات بتائی، تب بھی تم مر جاوگے" یہ کہہ کر وہ اپنی راہ چلا ،اور بے وقوف پریشان ہوکر گھر آگیا۔

چند دن اس نے اسی فکر میں گزاری۔ لیکن اصل پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب گھر میں آٹا ختم ہو گیا اور بیوی نے کہا کہ وہ چکی سے آٹا پیس کر لائے۔اب وہ نہ تو پن چکی جا سکتا تھا اور نہ ہی نہ جانے کی وجہ بتا سکتا تھا۔ ایک دو دن تو اس نے مختلف بہانوں سے گذاردیے۔ لیکن آخر کب تک؟ ایک دن بیوی کی چخ چخ سے تنگ آکر اس نے فیصلہ کرلیا کہ پن چکی چلا ہی جاوُں ، مر جاوں تو جان چھوٹ جائے گی۔ یہ سوچ کر اس نے غلہ گدھے پر لاد ا ، اور پن چکی کی طرف چلا۔

پن چکی کافی دور دریا کے پار تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے گدھے کو باہر چھوڑا اور غلہ اندر لے جاکر چکی میں ڈال کے چکی چلا دی۔ خود ایک طرف لیٹ گیا۔ دوپہر کا وقت تھا، وہ تھکا ہوا تھا اس لیے اسے نیند آے لگی۔ بے وقوف سمجھا کہ یہ موت کی علامات ہیں۔ اس لیے اپنے آپ کو قبلہ رو کرکے مرنے کی تیاری کرنے لگا۔

کچھ دیر سونے کے بعد وہ جاگا تو دیکھا کہ گدھا چکی کے اندر آگیا ہے اور آٹا کھا رہا ہے۔ گدھے سےکہنے لگا "ہاں ہاں کھاو۔۔۔ خوب کھاو۔۔۔ اب تو تمہیں کون روکنے بوالا ہے ، میں تو کب کا مر چکا ہوں" گدھا آٹا کھا کر سیر ہوا تو باہر نکل گیا اور گھر کی راہ لی۔ گدھا بغیر مالک کے گھر پہنچا تو بیوی پریشان ہوئی۔ وہ شوہر کو تلاش کرتی ہوئی پن چکی پہنچی تو دیکھا کہ وہ بے حس و حرکت پڑا ہے۔ وہ روتی ہوئی واپس آئی اور گاوں والوں کو بتا دیا کہ اس کا شوہر پن چکی میں مرا پڑا ہے۔ گاوں والے چارپائی لے کر چلے۔ بے وقوف کو چارپائی پر ڈالا اور گھر کو روانہ ہوئے۔ دریا پر پہنچے تو یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ دریا کو کہاں سے پار کیا جائے۔ جب بحث لمبی ہوگئی تو بے وقوف نے سر اٹھایا اور بولا "جب میں زندہ تھا تو یہاں سے تھوڑا آگے دریا پار کیا کرتے تھے"

لوگوں نے اسے اٹھایا اور پوچھا کہ اسے کیا ہوا تھا؟ اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ لوگ اس کی حماقت پر ہنستے ہوئے اسے گھر لے آئے۔

English Translation of the Story by Shams Uddin

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com