<= BACK

راجہ پختون ولی خان

ممتاز حسین

چترال اور یاسین کی ریاستیں ہندوکش اور قراقرم کی بے شمار تنگ وادیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ معلوم تاریخ میں یہ دونوں الگ اکائیوں کے طور پر موجود رہی ہیں لیکن ان کے درمیاں ایک مطبوط رشتہ بھی موجود رہا ہے۔ ان کے حکمران خاندانوں کے درمیاں خونی رشتے اور خون ریز لڑائیاں ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں۔

ان ریاستوں کے قیام میں شمال سے آنے والے ترک اور تاجک حملہ آوروں کا زیادہ ہاتھ رہا ہے اس لیے ان کے قدیم حکمراں زیادہ تر شمال سے رابطوں میں رہتے۔ اُس زمانے میں حکمران طاقت کے حصول اور حمایت کے لیے بدخشان، کاشعر اور یہاں تک پیکنگ تک سے رجوع کرتے تھے۔ تاہم اٹھارویں صدی کے آغاز میں کٹور اور خوشوقت خاندانوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ان ریاستوں کے تعلقات کا رُخ شمال سے جنوب کی طرف پھر گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان نئے خاندانوں کا تعلق پہلے والوں کی طرح شمال سے نہیں تھا، یا کم از کم یہ طویل عرصے تک یہاں رہنے کے سبب مقامی بن گئے تھے۔

ان نئے رجحان کی پہلی مثال وہ ہے جب اٹھاریں صدی کے شروع میں کٹور/خوشوقت خاندان کو رئیس خاندان نے دوبارہ بے دخل کردیا تو وہ مدد لینے شمال کے بجائے جنوب کی طرف گئے۔ سنگین علی ثانی نے یہاں کا اقتدار سواتی فوج کی مدد سے حاصل کیا۔ تب سے یہ معمول بن گیا کہ آپس کی خانی جنگیوں میں ہارنے والا ہمیشہ جنوب کی وادیوں میں پناہ لیتا۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں کہ ہارنے والا دیر، کوہستان، تانگیر، داریل یا کانڈیا وغیرہ میں پناہ گزیں ہوکر موقع کا انتظار کرتا رہا۔ اور جب بھی موقع ملا، واپس آکر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

یہ لوگ ان وادیوں میں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہتے اور مقامی آزاد قبائل کے رحم و کرم پر ہوتے۔ قبائل کا اپنا معاشرہ بغیر کسی ریاست کے، باہمی مشاورت پر چلتا تھا۔ انہیں بعض ماہرین بشریات 'جمہوریتیں' اور دوسرے 'بے سری ریاستیں' (Headless States) کا نام دیتے ہیں۔ ان پناہ گزینوں میں سے بعض ان معاشروں میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور کئی نے یہاں اپنا اقتدار جمانے کی کوشش بھی کی، لیکن ان میں سے بیشتر کو ناکامی ہوئی۔ صرف ایک شخص پختون ولی خان اس علاقے میں نہ صرف ایک باقاعدہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا بلکہ کئی سال تک اسے کامیابی سے چلاتے رہے۔

پختون ولی خان خوشوقتیہ خاندان کے حکمران میر ولی کے بیٹے تھے۔ میر ولی کی ہاتھوں انگریز مہم جو جارج ہیوارڈ کے مبینہ قتل کے بعد اسے اقتدار اور زندگی دونوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ان کے بعد ان کے بھائی غلام محی الدین پہلوان نے کچھ عرصہ اپنے خاندانی اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی لیکن ان کے قتل کے ساتھ اس خاندان کے اقتدار کا کا خاتمہ ہوگیا۔ میر ولی اور پہلوان دونوں کے بیٹوں نے اپنی حکومت واپس لینے کی کئی بار کوشش کی، لیکن انگریزوں، مہاراجہ کشمیر اور مہتر چترال جیسے طاقتور پارٹیوں کے سامنے ان کا بس نہیں چل سکا۔

1895 کی چترال کی خانہ جنگی کے دوراں میر ولی کے بیٹے انگریزوں کے خلاف شیر افضل خان کے کیمپ میں تھے۔ شیر افضل کی شکست کے بعد اس گروہ کے سارے لوگ کوہستان چلے گئے، جہاں سے شیر افضل خان کو دھوکے سے دیر بلا کر گرفتار کیا گیا۔ شیر افضل کے سپہ سالار محمد عیسیٰ اور میر ولی کا بیٹا محمد ولی خان ان علاقوں میں پھرنے کے دوراں فوت ہوگئے تو پختون ولی خان تانگیر چلا گیا اور وہاں کے قبائلی ملکوں میں اپنے حمایتی بنانے کی کوشش میں لگا رہا۔ اس دوراں علاقے کے بہت سے عمایدین اس کے خلاف تھے۔ ایک رات انہوں نے نے اس مکان پر حملہ کر دیا جس میں وہ مقیم تھے۔ انہوں نےمکان کو اگ لگانے سے پہلے اس کے محافطیں کو ایک کمرے میں بند کردیا تھا۔ پختون ولی نے اکیلے ہی ان کو مقابلہ کیا اور وہ کئی لاشیں چھور کر فرار ہوئے۔ صبح تک علاقے میں اس کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور اس نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔

پختون ولی نے جلد ہی اپنی ریاست کا دائرہ ہمساِیہ وادی داریل تک بڑھا لیا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ کے ساتھ واقع اکثر دیہات اور کچھ وادیاں بھی اس کے قبضے میں آگئیں۔ اس علاقے میں صدیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کو کسی اتھارٹی کے تحت رہنے کا تجربہ ہوا۔ ورنہ یہاں قانون اور بندوبست نام کی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ John Staley کے بقول پختون ولی خان ایشیاء میں نہیں تو برصعیر میں وہ آخری شخص تھا، جس اس طرح سے اپنے لیے ایک بادشاہت کی تعمیر کی۔ وہ علاقے جو اس سے پہلے حکومت نام کسی کسی چیز سے آشناء نہیں تھے، راتوں رات ایک مرکزی اقتدار کے تحت آگئے۔ اس نے ان لوگوں کو مرکزی اتھارٹی کے تحت لانے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ کئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اصلاحات کی بناء ڈالی۔ پشتونوں کے زیر اثر ان وادیوں میں زمین کی تقسیم کا ایک مخصوص نظام چلتا تھا جسے 'ویش' کہتے تھے۔ اس کے تحت زمین کی ملکیت کا ہر چند سال بعد قبیلوں میں تبادلہ ہوتا۔ یہ نظام زراعت کی ترقی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا تھا۔ پختون ولی نے اس نظام کو ختم کرکے زمینات کی ملکیت مستقل کردی۔ اس نے علاقے میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کا کام شروع کیا اور باہر سے تاجروں کو یہاں آنے کے لیے سہولیات فراہم کی۔ اس علاقے کے قدرتی وسائل جیسے جنگلات اور معدنیات سے فایدہ اُٹھانے کی طرف بھی اس کی توجہ رہی۔ یہ علاقہ جو ہزاروں سالوں سے باہر کی دنیا کے لیے علاقہ ممنوعہ تھا، پہلی بار دنیا کے لیے قابل رسائی ہوگئی۔ انہی کے دور میں مشہور برطانوی سیاح، مصنف اور ماہر آثار قدیمہ ارل سٹائن نے پختون ولی خان کے مہمان کی حیثیت سےان وادیوں کا دورہ کیا۔

پختون ولی خان کے انگریزوں کے ساتھ نہیں بنتی تھی۔ انگریز اپنے زیر سایہ علاقوں کے عین وسط میں ایک خود مختار ریاست کے وجود کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے پختون ولی خان کے مخالفیں کی حوصلہ افزائی بھی کہ تاکہ وہ اسے بے دخل کرکے اس علاقے پر قبضہ کرلیں، لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ راجہ صفت بہادر بروشے نے، جو کہ انگریزوں کی طرف سے علاقہ پونیال کا گورنر تھا، میجر ڈیو پولیٹکل ایجنٹ گلگت کی حمایت سے تانگیر پر قبضے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کشیدگی کے باوجود پختون ولی خان انگریزوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا خواہاں تھا تاکہ علاقے میں امن اور خوشحالی کا دور آئے۔

پختون ولی خان کی اصلاحات سے علاقے میں عمومی طور پر اطمیناں پایا جاتا تھا اور لوگوں کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ تاہم غیر مطمئن لوگوں کا ایک طبقہ بھی موجود تھا جو اپنی من مانی کرنا چاہتے تھے،وہ خاص طور پر جرائم پیشہ افراد کو دی جانے والی سخت سزاؤں سے نالاں تھے۔ وہ عرصے سے ان کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ بالاخر ان کو ایک دن موقع مل ہی گیا۔ 1917 کے موسم خزاں میں موضع لوروک کے باشندوں نے پختون ولی کو اپنی نئی جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی دعوت دی تھی۔ سنگ بنیاد رکھنے کے بعد اس نے اپنے محافط دستے کو مسجد کی تعمیر کے کام میں لگا دیا اور خود حجام کو بلا کر اپنی حجامت بنوانے لگا۔ قریب ہی دو افراد موقع کے انتظار میں چھپے تھے۔ وہ لپک کر آئے اور کلہاڑی کے وار سے پختون ولی خان کا سر تن سے جدا کردیا۔

اس طرح اس حیران کن شخصیت کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور یہ علاقہ ایک بار پھر لاقانونیت کی آغوش میں چلا گیا۔


اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ زیل کتابوں سے مدد لی گئی:

آب حیات-راجہ حسین علی خان المعروف بابا جان میتار کی خود نوشت
The Innermost Asia, Vol.I by Aurel Stien
Words for My Brother by John Staley



MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com