<= BACK

تنازعہ شندور - تاریخی دستاویزات کی روشنی میں

ذاکر اللہ ، ایم فل سٹوڈنٹ، قاید اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

شندور ہندوراج کے پہاڑی سلسلے پر واقع دروں میں سے ایک ہے۔ یہ درہ سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلند ہے، جو اس پہاڑی سلسلے کی سب سے کم بلندی ہے۔ نیز دونوں طرف سے اس درے تک رسائی بہت آسان ہے، چنانچہ اس پہاڑی سلسلے کے آر پار آمد و رفت کے لیے شندور سب سے اہم راستہ رہا ہے۔ اس درے کی بالائی سطح ایک میدان پر مشتمل ہے جس میں دو ٹکڑوں پر مشتمل ایک جھیل بھی واقع ہے۔ یہ میدان اور اس کے دونوں اطراف کی پہاڑیاں گرمائی چراگاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ جھیل کے قریب میدان میں پولو کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے اور حالیہ برسوں میں اسے ایک بڑے علاقائی ثقافتی اور سیاحتی ایونٹ کے طور پر سالانہ منایا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر شندور کے دونوں طرف کے علاقے ایک ہی ریاست کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے ایک طرف لاسپور، مستوج اور یارخون کی وادیاں اور دوسری طرف غزر اور یسین کی وادیوں پر مشتمل خوشوقت ریاست 1880 کی دھائی تک قائم رہی۔اس ریاست اور چترال کی کٹور ریاست کے حکمران ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں اور دونوں کے درمیاں رشتے داریاں اور قریبی تعلقات رہے ہیں۔تاہم یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے علاقوں پر دست دارازیاں بھی کرتے رہے ہیں۔ شندور سے چترال کی طرف کے خوش وقتی علاقے خصوصی طور پر دونوں خاندانوں کے بیچ تنازعے کی وجہ رہے ہیں۔ 1860 میں طاقت ور خوش وقتی حکمران گوہر امان کی موت کے بعد اس کی ریاست کمزور ہوتی گئی۔ اس اثناء میں امیر کابل کی طرف سے دراندازی کے خطرے کے پیش نظر چترال کے حکمران امان الملک اور خوش وقت حکمران پہلوان بہادر نے مہاراجہ جموں اور انگریزوں سے تعاون کی درخواست کی۔ اس کے نتیجے میں ایک معاہدہ عمل میں آیا جس کے تحت انہوں نے مہاراجہ کشمیر کی بالادستی کو تسلیم کر لیا۔ تاہم بعد میں پہلوان بہادر نے گلگت پر فوج کشی کی جس میں ناکامی کے بعد اسے جلا وطن ہونا پڑا اور خوش وقت ریاست کے علاقے امان الملک کے قبضے میں آ گئے۔ 1895 میں چترال کی خانہ جنگی میں انگریز بھی ملوث ہوگئے اور اس کے اختتام پر یہاں انگریزوں کی بالادستی قائم ہو گئی۔ 1895 کے بعد انگریزوں نے سابقہ خوش وقت ریاست کے علاقے مہتر چترال سے اپنے ہاتھ میں لے کر گلگت ایجنسی کے تحت رکھے اور ہر علاقے میں تنخواہ دار گورنر مقرر کیے گئے۔ 1914 میں لاسپور، مستوج اور یارخون کے علاقے مہتر چترال کو واپس کر دیے گئے تاہم شندور پار کے علاقے بدستور گلگت ایجنسی کے ماتحت رہے۔ یہ نظام قیام پاکستان کے بعد بھی 1974 تک جاری رہا۔ اس انتظام کے تحت شندور ریاست چترال کی مشرقی سرحد قرار پایا۔ مہتر چترال نے آخر تک شندور پار کے علاقوں کی واپسی کے لیے کوششیں کی لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی۔

اگر چہ 1914 کے بعد شندور ریاست چترال اور گلگت ایجنسی کے درمیان سرحد قرار پائی لیکن سرحدی لکیر کے تعین کا معاملہ عام طور پر متنازعہ رہا۔ اس سلسلے میں عوام اور حکومت دونوں سطحوں پر تنازعات اُٹھتے رہے اور اس سلسلے میں ریاست چترال کی انگریزوں سے اور انگریزی حکام کی آپس میں خط و کتابت جاری رہی۔ یہاں پر ہم اس سلسلے کی کچھ تاریخی دستاویزات کے حوالے سے اس سارے معاملے کو دیکھیں گے۔

1933ء میں شندور کے بارے میں ایک یادداشت کی کاپی گلگت کے پولیٹیکل ایجنٹ کی طرف سے پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ کو بھیج دی جاتی ہے۔ اس یاداشت میں گلگت کی طرف سے شندور کے مسئلے کے اوپر اعتراضات اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چترال کے مہتر نے سرحد سے گلگت کی حدود کے اندر پولوگراونڈ اور جھونپڑی (Hut)تعمیر کر لی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ پولوگراونڈ اور جھونپڑی کی مرمت کا کام لاسپور کے لوگ مہتر کے حکم پر کرتے ہیں اور مہتر چترال کا بیٹا ابھی حال ہی میں موسم بہار کے دنوں وہاں ٹھہرا تھا۔ مزید یہ کہ گلگت کے سنگ میل T14 اور T 15 کو گاؤں ٹیرو سے ہٹا کر ان کی جگہ L اور M میل سٹون کھڑا کیا گیا ہے ۔جن کا مطلب Lowari اور Mastuj بنتا ہے ۔

اس کے بعد 24 اکتوبر 1933 کو پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ کی طرف سے مہتر چترال کو ایک خط لکھا جاتا ہے۔جس میں مہتر چترال کو مخاطب کرکے پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ لکھتے ہیں کہ
" چترال میں میرے قیام کے دوران میں نے آپ کو گلگت کی طرف سے آنے والی شکایات سے آگاہ کیا تھا۔ ان میں سے سب سے اہم مسئلہ ڈاک بنگلہ کا تھا جو کہ Captain Cobb کے زمانے میں گلگت کی حدود میں بنایا گیا تھا ۔ 1928 میں اس جگہ کا معائنہ سکاؤٹس کے تین افراد نے کیا تھا جن میں سے دو چترال سے جبکہ ایک گلگت سے تھا ۔ پھر 1929 میں سروے آ فیسر کے ذریعے بھی اس جگہ کا معائنہ کرایا گیا۔ یہ دونوں ٹیمیں اس بات پر متفق تھیں کہ حقیقی واٹر شیڈ جھیل کے مغربی جانب واقع ہے ۔ اسی لئے مستقبل میں اسی واٹر شیڈ کو ریاست کی حد تصور کریں گے۔ لہذا مہتر چترال کوچاہیے کہ اپنے کسی بیٹے یا عہدیدار کو اس سرحد کو پار کرنے نہ دے۔ البتہ پولیٹیکل ایجنٹ گلگت کی رضامندی سے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ تاہم اس سے ہرچین اور لاسپور کے دوسرے دیہات کے لوگوں کے جانور چرانے اور لکڑی کاٹنے کے حقوق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ باقی ڈاک بنگلہ کا مسئلہ گلگت ایجنسی کے اوپر چھوڈ دینا چاہیے۔وہ چاہیں تو اسے رکھیں یا گرا دیں۔"

اس خط کا سادہ مطلب یہ تھا کہ شندور جھیل کا واٹر شیڈ ریاست چترال اور گلگت ایجنسی کے درمیان سرحد ہے۔ نیز یہ کہ اس سے آگے چترال کا مہتر یا اس کا کوئی عہدیدار نہیں جاسکتا ۔ البتہ سرحد کے گلگت کی طرف لاسپور کے لوگوں کو جانور چرانے اور لکڑی کاٹنے کا حق حاصل رہے گا۔

24 اکتوبر کو ایک اور خط Robert Hay پولیٹیکل ایجنٹ مالاکنڈ کی طرف سے صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری کو بھیجا جاتا ہے۔اس خط میں بھی اوپر والی تمام باتیں دہرائی جاتی ہیں اور شندور جھیل کی مغربی طرف کے واٹر شیڈ کو ریاست چترال کی سرحد قرار دیا گیا ہے۔

29 اکتوبر 1933 کو مہتر چترال کی طرف سے ملاکنڈ کے پولیٹیکل ایجنٹ کو شندور کے حوالے سے ایک تفصیلی خط لکھا گیا ہے، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
"1914ء میں مستوج اور لاسپور کے علاقے چترال کومنتقل کرنے کے دوران مہتر چترال بہ ہمراہ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ گلگت شندور ٹاپ کے مقام پر ایک ہفتے کے لیے کیمپ لگا کر ٹھہرے تھے ۔اس وقت سرکاری طور پر باؤنڈری کا تعین کیا گیا تھا جو اب (1933) تک بر سر عمل رہا ہے۔ 1916 میں کرنل سمتھ اور میجر ریلی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے مذکورہ باونڈری کو حتمی قرار دے چکے ہیں۔ اور اسی طرح مسٹر ووڈ بولارڈ نے بھی اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ چترال کے ساتھ 1928ء میں شندور ٹاپ کے مقام پر مل کر ایک بار پھر اس حد بندی کی توثیق کی تھی۔ میرا بیٹا جب مستوج کا گورنر تھا تو اس جگہ کی سیر کرتا رہا ہے۔تب کسی طرف سے کوئی اعتراض یا سوال سامنے نہیں آیا۔ مزید یہ کہ 1895 ء کے بعد لاسپور کا حاکم ہی پورے شندور ٹاپ کا انچارج رہ چکاتھا۔ اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شندور چترال کا حصہ ہے۔ جہاں تک ڈاک بنگلہ کا تعلق ہے تو اسے میں نے کافی پہلے اپنے لیے تعمیر کیا تھا اور اس پر کوئی تنازعہ نہیں اٹھا تھا۔ اب اسے گلگت ایجنسی کے حوالے کرنے کا کیوں کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلے کے لیے جگہ کی نشاندہی پولیٹکل حکام نے ہی کی تھی۔ اور یہ کہ ڈاک بنگلہ جس جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے وہاں لاسپور کے لوگ گرمیوں میں قیام کرتے ہیں۔

اس معاملے پر ایک اور خط 6 نومبر 1933 کو پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ کی طرف صوبہ سرحد کے چیف سکریٹری کو ایک خط لکھا گیا ہے۔ اس خط میں صرف اتنی وضاحت کی گئی ہے کہ شندور جھیل کے دو واٹر شیڈ ہیں ایک مغرب کی طرف اور دوسرا مشرق کی طرف۔اور یہ کہ مہتر کا ڈاک بنگلہ جھیل کے نزدیک دونوں واٹر شیڈ کے درمیان ہے۔

مختصر یوں کہ شندور کے سلسلے میں مہتر چترال کا دعویٰ تھا کہ شندور ٹاپ کا پورا علاقہ چترال کا ہے، جبکہ برطانوی حکام کے مطابق شندور جھیل کے قریب کے واٹرشیڈ پر سرحد واقع ہے۔ تاہم برطانوی آفیسر یہ مانتے تھے کہ شندور میں سرحد کے گلگت کی طرف بھی لاسپور کے لوگوں کو جانور چرانے اور لکڑیاں کاٹنے کا حق حاصل ہے۔

چترال کے حکمران کے بعد سے شندور پار کے علاقوں کی واپسی کے لیے کوشش کرتے رہے۔ تاہم 1930کے بعد ان کی توجہ زیادہ تر شندور کے مقام پر حد بندی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف رہی۔ یہ مسئلہ 1947 میں آزادی کے وقت تک حل طلب رہا۔ قیام پاکستان کے بعد مہتر چترال کی طرف سے شندور پار کے علاقوں کی چترال کو واپسی کے ایشو کو پھرسے اٹھایا گیا اور اس معاملے پر گورنر جنرل کو خط لکھا گیا۔ تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حالیہ برسوں میں شندور کے مقام پر پولو فیسٹیول کے باقاعدہ انعقاد کے سبب اس مقام کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اس علاقے کی ملکیت، استفادے کے حقوق اور میلے کے انتظامات میں شرکت جیسے امور پر دعوے اور جوابی دعوے سامنے ا رہے ہیں۔

حوالہ جات

ان میں سے گورنر جنرل کے نام مہتر چترال کا خط مورخہ 24 مارچ 1948 جو Jinnah Papers, Volume-V میں شامل ہے۔ باقی تمام خطوط آرکائیوز ڈپارٹمنٹ پشاور میں موجود ہیں۔



ادارہ کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں۔
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com