<= Back to ARTICLES Page

کھوار شاعری میں علم عروض کا استعمال

محمد نقیب اللہ رازی

ہمارے ہاں شاعری کے موضوع پر بات کرتے ہوئے عموماً وزن اور بحر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ کسی کلام کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ وزن میں ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ کس بحر میں ہے۔ چنانچہ یہ جاننا ضروری ہوگا کہ وزن اور بحر ہیں کیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بحر ان موزوں کلمات کا نام ہے، جن پر شعر کے الفاظ تولے جاتے ہیں۔ ماہریں نے ان کلمات کے کے چند معیاری نمونے بنا رکھے ہیں، جن میں سے کسی ایک پر کلام کو پورا اترنا ضروری ہے۔ عروض کے ماہرین کے نزدیک بحروں کی کل تعداد چوبیس ہے۔ ہر بحر چند حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کو اس بحر کے ارکان کہتے ہیں۔ ہر بحر میں ارکان کی تعداد اور ترتیب دوسروں سے منفرد ہوتی ہے۔ بحر کے ہر رکن کو اس کی حرکات کے مطابق تقسیم کرنے کے عمل کو تقطیع کہتے ہیں، اور کسی شعر کی کی تقطیع کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ وہ کس بحر میں ہے یا پھر بحر میں ہے بھی یا اس سے خارج ہے۔ اگر شعر کسی بحر کے مطابق ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ وزن میں ہے۔ چنانچہ شعر کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ "شعر اس موزوں اور باقافیہ کلام کو کہتے ہیں، جو کو ارادتاً کسی نہ کسی بحر کے اوزان کے مطابق لکھا گیا ہو۔"

باقی رہے شعری نزاکت، بلندیٔ تخیل، حسن ترتیب اور ان جیسی دیگر خوبیاں، تو یہ شعر کے محاسن ہیں۔ ان کا موجود ہونا شعر کے معیار کو بلند کرتا ہے۔ لیکن ان محاسن کی کوئی کم سے کم مقدار کا تعین نہیں کیا جاسکتا جو شعر کے لیے لازمی ہو۔ یہ جتنے زیادہ ہوں اتنا اچھا ہے۔ لیکن اگر یہ محاسن شعر میں بہت کم بلکہ بالکل ناپید ہوں، تب بھی وہ بدستور شعر کہلا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ عروض کے بنیادی اصولوں پر پورا اترتا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر گوئی کے لیے عروض سے واقفیت کس قدر ضروری ہے۔

علم عروض کی ابتدا عربی سے ہوئی۔ یہاں سے یہ فارسی میں آئی اور پھر پاک و ہند کی زبانوں نے انہی اصولوں کو اپنایا۔ ان زبانوں میں انہی قواعد و ضوابط کے تحت شاعری کی جاتی ہے، اور عروض سے لاعلم شخص شاعری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عروض کے قوانیں سے باہر کسی مترنم یا مقفیٰ کلام پر شعر کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہر تک بندی کرنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی مبتدی شاعری کی راہ میں قدم رکھنا چاہے، اور وہ ان قواعد و ضوابط سے کما حقہ اگاہ نہیں ہے ، تو اسے کسی کہنہ مشق استاذ کی شاگردی اختیار کرنی پڑتی ہے، جو اس کی اس وقت تک رہنمائی کرتا ہے، جب تک وہ خود ان قواعد پر عبور حاصل نہ کر لے۔

کھوار شاعری میں بھی عروض کے قواعد کے استعمال کی روایت کچھ ایسی نئی بھی نہیں۔ کھوار کے قدیم ترین شاعر جن کا کلام تحریری طور پر محفوظ ہوا، اتالیق محمد شکور غریب ہیں۔ انہوں نے آج سے کوئی تین سو سال قبل فن عروض کی پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے کھوار شاعری کی۔ غریب کے بعد موجودہ دور تک ہمیں کھوار شاعری کے بہت کم نمونے تحریری صورت میں محفوظ ہیں۔ اس عرصے بہت سے ایسے شعراء نے کھوار میں کلام تخلیق کیا جو فارسی کے مستند شاعر تھے۔ مثلاً مرزا محمد سیر اور معظم خان اعظم وغیرہ۔ ان کا فارسی کلام بلاشبہ فن عروض پر سو فیصد پورا اترتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے یہی بات ان سے منسوب کھوار کلام کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ اس کی واحد وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا کلام زبانی نقل در نقل کے نتیجے میں کچھ کا کچھ ہوکر رہ گیا۔ ورنہ جو شخص فارسی میں سینکڑوں اشعار فنی تقاضوں کے عین مطابق لکھ سکتا ہو، تو کیا اپنی مادری زبان میں کچھ اشعار انہی قواعد کے اندر نہیں لکھ سکتا ہے۔

یہاں پر یہ بھی واضح کرنا مناسب ہوگا کہ ادب بنیادی طور پر دو قسم کا ہوتا ہے۔ اول لوک ادب (folk literature) اور دوم معیاری یا کلاسیکل ادب۔ اول الذکر کسی ایک فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ معاشرہ اس کا خالق ہوتا ہے۔ چنانچہ زبانی روایت کرنے والے اس میں اپنی طرف سےاضافے کرتے رہتے ہیں اور اس کے کچھ حصے بھولتے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس کی شکل کچھ سے کچھ ہوکر رہ جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسا ادب نہ تو کسی خاص صنف کی قید میں آتا ہے اور نہ اس پر اصول و ضوابط لاگو ہوسکتے ہیں۔ دوسری قسم کا ادب جو ارادتاً ایک ادیب تخلیق کرتا ہے اور وہ لکھی ہوئی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دوسرا شخص تبدیلی یا اضافہ نہیں کرسکتا۔ ایسا ادب کسی نہ کسی ادبی صنف کے سانچے میں تخلیق کیا جاتا ہے اور وہ مکمل طور پر اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ابتدائی طور پر ادب لوک ادب کی شکل میں بیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ قوعد و ضوابط تشکیل پاتے جاتے ہیں اور معیاری ادب کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔

کھوار زبان بھی انہی مرحلوں سے گزری ہے۔ پہلے پہل جو کچھ ادب گیتوں اور لوک کہانیوں کی صورت میں اس زبان میں تخلیق ہوا وہ لوک ادب کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اگر ہم گیت لکھنے بجائے غزل، مثنوی وغیرہ کی مشق کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوک ادب کے دور سے نکل کر معیاری ادب کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ اب ہمیں اپنے معیارات قائم کرنے ہوں گے اور ان پر کار بند رہنا ہوگا۔ اس لیے یہ کہنا کہ اشور جان میں عروض کی پابندی نہیں کی گئی ہے، اس لیے ہم غزل بھی بغیر پابندیوں کے لکھیں گے ، کچھ مناسب نہ ہوگا۔ بے شک آج بھی اگر کوئی روایتی انداز میں کھوار گیت لکھے تو اس پر ہیئت اور وزن و بحر کی پابندیاں نہیں لگ سکتیں۔ لیکن اگر کوئی شاعر فارسی، اردو کے تتبع میں غزل لکھ رہا ہے اور اسی ہیئت کی پابندی کر رہا ہے تو پھر اسے غزل کے لیے بنائے گئے تمام قواعد کی کی پابندی کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر اسے اپنے کلام کو غزل کہنے کا حق نہیں پہنچتا۔

بہر حال اگر اج سے تین سو سال پہلے کھوار شاعری ان اصولوں کے اندر رہتے ہوئے لکھی جاسکتی تھی تو آج ایسا کرنے کی راہ میں کیا مشکل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے آج کے شعراء میں اس ضرورت کو بہت کم محسوس کیا جاتا ہے۔ بلکہ بہت سے شاعر حضرات تو باقاعدہ اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ خصوصاً سینئیر شعراء کا رویہ بہت ہی منفی ہے۔ البتہ نوجون نسل میں اس ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ کئی شاعر ایسے ہیں جو باقاعدہ عروض کے قواعد کو سامنے رکھ کر کلام لکھ رہے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر کا کلام سو فیصد ان قواعد پر پورا نہیں اترتا، لیکن اگر یہ حضرات کوشش جاری رکھیں اور کسی کی رہنمائی حاصل کریں تو ان کا کلام مکمل طور پر قواعد پر پورا اترے گا۔

کھوار زبان میں کچھ ایسی فنی پیچیدگیاں بے شک موجود ہیں، جن کی وجہ سے عروضی قواعد کے استعمال کی راہ میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایسا کسی بھی زبان میں ہوسکتا ہے۔ جب عربی اور فارسی کے لیے بنائے گئے قواعد کو اردو پر پہلے پہل ازمایا گیا ہوگا ، تو ایسے ہی مسائل پیش آئے ہوں گے۔ لیکن ان مسائل کو اردو کے شاعروں نے تن آسانی کا بہانہ نہیں بنایا، بلکہ کوشش جاری رکھی اور مسائل کے لیے حل تلاش کرلیے۔ ہمیں بھی کھوار کے سلسلے میں اسی روش کو اپنانا چاہیے۔ اس طرح ہم کھوار شاعری کو بھی اگر قواعد کا پابند بناتے جائیں گے تو اس کا معیار بلند ہوگا اور یہ عالمی ادب کی صف میں جگہ بنانے کے قابل ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی مضمون کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیے۔۔۔

علم عروض کے بارے میں مزید جانیے
صالح ولی آزاد
ثناء اللہ ثانی
اس موضوع پر اپنی رائے آپ ہمیں ای۔ میل کرسکتے ہیں۔ اپکی رائے اسی جگہ شائع کی جائے گی
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com