<= Back to ARTICLES Page

کھوار شاعری کے لیے نیا قاعد - کٹک

سعید الابرار سعید

کھوار شاعری میں بھی کافی عرصے، بلکہ صدیوں سے عربی اور فارسی کے وہی معروف بحور اور دیگر قواعد مستعمل رہے ہیں، جیسے کہ محمد شکور غریب، مرحوم، اور محمد سیر بابا کے کلام میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں، اور بعد میں آنے والے کچھ شعراء نے بھی انہی کی اقتداء کرتے ہوئے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا، اور اپنی شاعری میں انہی قواعد کو استعمال کیا، جو عام طور پر عربی اور فارسی میں مستعمل ہیں، کھوار زبان کی شاعری پر آج تک بہت سارا کام اہل ادب نے سر انجام دیے ہیں، اور کھوار عروض اور قوافی کے نام سے بھی مولانا نقیب اللہ رازی صاحب نے عروض اور قوافی کی ابحاث پر مشتمل ایک جامع کتاب تصنیف فرمائی ہے، جس میں معروف عروضی قواعد کو ہی بنیاد بنا کر کھوار شاعری کو اسی سانچے میں ڈھالا گیا ہے، جو کہ ایک امر مستحسن ہے۔

چونکہ ان قواعد سے فائدہ اٹھانے، اور اپنی کھوار شاعری کو انہی قواعد کے ترازو میں تولنے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ عربی کی فہم ضروری ہوتی ہے، لیکن کھوار زبان کی مخصوص نوعیت کے سبب اس سلسلے میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ چنانچہ شعراء، ادباء اہل علم اور اپنی زبان کھوار سے دلچسپی اور محبت رکھنے والوں کی طرف سے کچھ عرصے سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ کھوار شاعری کے لئے فارسی، عربی اور اردو میں مستعمل عروض سے ہٹ کر بھی کوئی الگ قواعد و ضوابط کی تربیت آسان اور سہل بنیادوں پر ہونی چاہیے، تاکہ عربی، فارسی اور اردو میں لاگو ہونے والے عروضی قواعد کی جھنجھٹ سے چھٹکارا حاصل ہو جائے، اور پھر وہ حضرات جن کی فارسی اور عربی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن وہ کسی قانون اور قاعدے کے اندر رہ کر اپنی زبان کے لئے خدمات انجام دینا چاہتے ہیں، ان کے لئے بھی وہ قواعد مشغل راہ ہوں۔

کافی عرصے سے اسی تگ و دو میں لگنے کے با وجود کوئی ایسا فارمولہ نہیں مل پا رہا تھا جس کی پیروی کر کے ایک عام اور درمیانہ شاعر بھی اپنے کلام میں جان ڈال سکیں۔ گزشتہ دنوں محرکہ ویب سائٹ میں ایک پشتون شاعر کا مضمون شائع ہوا جس میں پشتو شاعری کے اپنے قواعد کا تعارف کیا گیا تھا۔یہ قواعد جو "سیلاب" جس میں پشتو شاعری کے لئے عربی اور فارسی کے معروف عروضی قواعد سے ہٹ کر آسان اور سہل انداز میں ایک قاعدہ "سیلاب " کے نام سے موسوم ہیں نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ "سیلاب" لفظ کے متحرک حصے کا نام رکھا گیا ہے، کہ شعر کے ایک مصرع میں اتنے سیلاب ہونے کی صورت میں کلام موزوں سمجھا جائے گا، اور بطور مثال رحمان بابا کے ایک شعر کی اس انداز سے تقطیع بھی کی گئی تھی، کہ ان کے شعر کے ہر مصرع میں مثلاً نو سیلاب دکھایا گیا ہے، اور پھر پوری غزل اسی نو سیلاب پر ہی فوکس ہوگی۔

چونکہ پشتو زبان عربی قواعد کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، اس بناء پر پشتو زبان کی شاعری کے لئے یہ آسان سا طریقہ متعارف کرایا گیا ہے، جو کہ سمجھنے میں آسان ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب بھی معلوم ہوا۔ پشتو شاعری کے لیے ترتیب دیے گئے قواعد کا سرسری جائزہ لینے کے بعد دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اسی انداز میں کچھ آسان فہم اور سہل قواعد کھوار شاعری کے لئے بھی ہونے چاہئیں، کہ جن کو سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا ہر محب زبان کے لئے آسان ہو۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں ایک ایسا جامع نام متعلقہ زبان (کھوار) سے ہی درکار تھا، جو ایک قاعدہ بننے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ با معنی اور مناسب بھی ہو۔ جس کو ہم " سیلاب " کی طرح قاعدے کے نام کے طور پر استعمال کریں۔ اس کے لیے ذہن میں پہلے سے مستحضر چند مناسب الفاظ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا شروع کیا، بالآخر کھوار زبان کا ایک لفظ " کٹک " بفتح الکاف والٹا، ذہن میں آیا، بعض احباب سے جو کھوار کے قدیم الفاظ سے واقفیت رکھتے ہیں، استفسار کرنے پر بتایا گیا، کہ " کٹک " کا اطلاق کسی بھی کم چیز پر ہوتا ہے۔ بعض نے کہا کہ اگر کھوار میں " ای کٹک " بولا جائے تو اس سے مراد ایک لفظ یا ایک حرف ہوا کرتا ہے، اور میرا اپنا اندازہ بھی یہی ہے کہ "کٹک" سے مراد لفظ لیا جائے تو ذیادہ مناسب ہے، ویسے ہمارا مدعا دونوں صورتوں میں حاصل ہو رہا ہے، " کٹک " سے مراد ایک حرف ہو، یا ایک لفظ جو بھی، لیکن لفظ ایک اعتبار سے حرف کو بھی شامل ہے، کیونکہ کوئی بھی لفظ حروف ہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔

نام کا تعین ہونے کے بعد دوسرا مرحلہ معروف عروضی بحور کی چھان بین کا تھا، جس کے لئے ہم نے عربی اور فارسی کی پچیس مشہور ان بحروں کی چھان بین کی، جو عروضی کلام میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہیں، اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد پچیس تک ہے، ان بحروں میں بحر متقارب مثمن سالم، بحر متقارب مثمن محذوف، متقارب اثرم مقبوض، متقارب اثرم مقبوض محذوف، متدارک مثمن سالم، متدارک مثمن مخبون، ہزج مثمن سالم، ہزج مسدس سالم، ہزج مسدس محذوف، ہزج مثمن مقبوض، ہزج مثمن اشتر، ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف، ہزج مثمن اخرب سالم، رجز مثمن سالم، رجز مثمن مطوی مخبون، رمل مثمن محذوف، رمل مسدس محذوف، رمل مثمن مخبون محذوف، رمل مثمن مشکول، کامل مثمن سالم، مجتث مثمن مخبون محذوف، منسرخ مثمن مطوی مکسوف، مدید مثمن سالم، جمیل مثمن سالم، سر فہرست ہیں، ان بحروں کا ہم نے اس انداز سے چھان بین کی، کہ ان میں سے ہر بحر کے سالم ارکانوں میں کتنی بار لفظ متحرک استعمال ہوا ہے، اسی طرح زحافات کا اندازہ لگایا کہ ان میں کتنی بار لفظ متحرک ہو کر استعمال ہوا ہے، اسی انداز سے جب ان پچیس بحروں کا اندازہ لگایا تو مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ پچیس میں سے پانچ بحروں میں شعر کے ہر مصرع میں بارہ مرتبہ متحرک لفظ استعمال ہوتا ہے، چار بحروں کے غزل کے ہر مصرع میں گیارہ مرتبہ متحرک آیا ہے، ایک بحر کے ہر مصرع میں سات بار متحرک استعمال ہوا، ایک بحر کے ہر مصرع میں آٹھ بار لفظ متحرک استعمال کیا گیا ہے، پانچ بحروں کے ہر مصرع میں سولہ مرتبہ متحرک لفظ استعمال ہوا، چار بحروں کے ہر مصرع میں چودہ مرتبہ متحرک لفظ استعمال ہوا ہے، تین بحروں کے ہر مصرع میں پندرہ بار لفظ متحرک مستعمل ملا۔ دو بحروں کے ہر مصرع میں بیس مرتبہ متحرک لفظ نظر آیا، مکررات کو ملا کر یہ مشہور پچیس بحور کا خلاصہ نکلا۔۔۔ اوپر ہم نے جو نام " کٹک " تجویز کیا تھا، اب لفظ متحرک کا نام میں نے" کٹک" رکھا ہے، کٹک سے مراد صرف وہی لفظ ہو سکتا ہے جو متحرک ہو، فارسی اور عربی کی مختلف بحروں میں لفظ متحرک تعداد کے لحاظ سے کئی مقام پر برابر ہوتے ہیں، مثلاً بحر متقارب مثمن سالم، اور بحر متدارک مثمن سالم دونوں بحروں کے ہر مصرع میں متحرک لفظ بارہ، بارہ مرتبہ آیا ہے، چونکہ وہاں ایک بحر میں وتد مجموع پہلے آتا ہے اور دوسری بحر میں وتد مجموع آخر میں آتا ہے، اب اسی جھنجھٹ سے نکل کر ہمیں صرف ہر مصرع میں متحرک الفاظ کی تعداد کو دیکھنا ہے، کہ وہ تعداد ان پچیس بحروں میں استعمال ہونے والے متحرک الفاظ کی تعداد کے برابر ہو۔

جب یہ بات بھی واضح ہو گئی، تو تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم " کٹک " کی اصطلاح لفظ متحرک کے لئے استعمال کر کے یہ کہیں گے، کہ کھوار شاعری میں شعر کے ایک مصرع میں اتنے" کٹک " کا ہونا ضروری ہے، اور وہ تعداد جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ہر مصرع میں 12.کٹک اگر آجائے تو یہ ایک بحر شمار ہوگی، علی ہذا القیاس۔۔۔ اگر کسی غزل کا ہر مصرع بارہ، گیارہ، آٹھ، سات، سولہ یا بیس، کٹک پر مشتمل ہو، اس کو زیر قاعدہ مصرع تصور کیا جائے گا،

اب آسان انداز میں کٹک کی مثال ملاحظہ فرمائیں:
کھوار کا ایک لفظ ، البت، ہے، لفظ البت دو کٹک سے جڑا ہوا ہے۔ ایک اور لفظ، مثلاً ختان، ہے، ختان بھی دو کٹک پر مشتمل ہے، اسی طرح ایک اور لفظ چھترار ہے یہ بھی دو کٹک پر مشتمل ہے، مثلاً ای نعتیہ شعر:
حبیب خالق اکبر مہ پیغمبر مہ پیغمبر
جہانو قائد و رہبر مہ پیغمبر مہ پیغمبر۔
اس شعر کے ہر مصرع میں سولہ کٹک موجود ہیں
جیسا کہ
ح۔۔۔ ایک
بی۔۔۔ ایک
بے۔۔ایک
خا۔۔۔ایک
لے۔۔ایک
قے۔۔ ایک
اک۔۔۔ ایک
بر۔۔۔۔ ایک
مہ۔۔۔ایک
پیغمبر۔۔۔تین
مہ۔۔۔ ایک
پیغمبر۔۔تین
اسی طرح دوسرے مصرع میں

اسی قاعدے کے تحت لکھا گیا ایک تازہ شعر کی مثال ملاحظہ فرمائیں
گیکو ای سال یورانہ کیہ ہوش کوروئے
کورا ای شہر نا پرساں گدیریو
اس شعر کے ہر مصرع میں بارہ کٹک آئے ہیں
مذکورہ مختصر سا مضمون اس سلسلے کی ایک بہت ہی مختصر سی تمہید ہے، جو کہ صرف پچیس مشہور بحروں کا خلاصہ ہے، فی الحال اہل ادب اور اہل علم کے سامنے ایک تجویز کے طور پر یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے، اس تجویز کی درستگی کی صورت میں اس عقدے کی مزید گرہیں بھی کھل کر سامنے آ سکتی ہیں.
اس قاعدے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ کھوار زبان کے کچھ الفاظ مثلا۔۔۔۔ دروچ، ( انگور ) کروچ۔۔ ( جلا ہوا خاکستر ), دروخم۔۔۔ ( چاندی ) وغیرہ کو عربی اور فارسی قواعد کے سانچے میں ڈال کر ادا کرنا نا ممکن اگرچہ نہیں، تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ ان میں بعض الفاظ جو کہ حقیقۃ پانچ حروف کا مجموعہ ہیں، مثلاً۔۔۔۔ دروخم۔۔۔۔۔ مگر اس کا ملفوظ چار حروف کے مجموعے کی طرح ہوتا ہے، لفظ۔ دروخم، اگرچہ بحر متقارب کے ایک رکن فعولن کے وزن پر ہے، مگر اس لفظ کی ادائیگی یا تو مفعو کے وزن پر ہوتی ہے،اور یا فعلن بسکون العین کے وزن پر ہوتی ہے، اسی طرح لفظ " دروچ " جو کہ حقیقۃ فعل بفتح الفاء، والعین کے وزن پر پورا اترتا ہے، مگر اس لفظ کی ادائیگی۔۔ فع۔۔۔ بسکون العین کے وزن پر ہوتی ہے، الغرض کھوار زبان کے کئی ایسے الفاظ ہیں کہ جو مروجہ عروض سے ہٹ کر اپنا ایک الگ قاعدے کا برملا مطالبہ کرتے ہیں، ایسی صورت میں مذکورہ بالا " کٹک " کی اصطلاح استعمال کرنے سے کھوار کے ان تمام الفاظ کا ہم احاطہ کر کے ان کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں۔

سید الابرار سعید کا تعلق چترال کے تحصیل تورکھو کے گاؤں مڑھپ سے ہے، درس نظامی کی تکمیل کے بعد سعودی عرب میں امام مسجد کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سعید الابرار سعید اردو اور کھوار میں شاعری کرتے ہیں اور کھوار کے شاعروں میں سے ہیں جو عروضی قواعد کے تحت شاعری پر زور دیتے ہیں۔

اسی موضوع پر پڑھیے
کھوار شاعری میں علم عروض کا استعمال--- نقیب اللہ رازی
علم عروض اور کھوار شاعری--- صالح ولی آزاد
شاعری اور علم عروض--- ثناء اللہ ثانی
کھوار شاعری میں علم عروض کا استعمال (حصہ دوم)۔۔۔ نقیب اللہ رازی
پشتو شاعری کے عروضی قواعد--- جمیل یوسفزئی

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com