Back to Main Page

کتب بینی کے سائیڈایفیکٹس

ممتاز حسین

آپ نے انگریزی دواوں کے ڈبوں میں پرچہ ہائے ترکیب استعمال دیکھے ہوں گے بلکہ کچھ حضرات نے پڑھے بھی ہوں گے۔ آپ کو ذاتی طور پر یہ توفیق نہیں ہوئی ہے تو محترم انور مسعود کی نظم پڑھ لیجئے جس کا پہلا شعر یوں ہے:

سر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے == پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

اپنا تو یہ تجربہ ہے کہ بعض حضرات کو دوا سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی، جتنی ان پرچیوں سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ عادت ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔ ان پرچیوں میں دوا کے استعمالات اور ہدایات کے علاوہ ان کے سائیڈ ایفیکٹس پر بھی پرمغز بحث ہوتی ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں پرچی کا یہی حصہ زیادہ مبنی بر حقیقت محسوس ہوتا ہے اور اسی کے سہارے انگریزی دواؤں کا بھرم باقی ہے، ورنہ حال دل مت پوچھیں۔۔

کہ۔۔۔ کیا کیا ہوا اس دل کے ساتھ مگر تیرا پیار نہیں بھولے ۔۔ والا معاملہ ہے۔

کتابوں کے فواید پر تو کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس ناچیر کیے ان چند جملوں کو آپ کتابوں کے سائیڈ ایفیکٹس کا بیان سمجھ لیجئیے۔

کرشن چندر کےناول" ایک گدھے کی سرگذشت " میں ہیرو یعنی گدھا ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتاہے

" میں نہ تو کوئی سادھو فقیر ہوں، نہ پیر دستگیر، نہ شری گھمگھما نند کا چیلا ہوں، نہ جڑی بوٹیوں والا صوفی گورمکھ سنگھ مچھیلا ہوں، نہ میں ڈاکٹر ہوں، نہ حکیم، نہ ہمالیہ کی چوٹی پر مقیم۔ نہ کوئی فلم سٹار ہوں نہ سیاسی لیڈر۔ میں تو بس ایک گدھا ہوں، جسے بچپن کی غلط کاریوں کے سبب اخبار بینی کی مہلک بیماری لاحق ہو گئی تھی"۔

میں ذاتی طور پر اس لیڈر گدھے کی ہمسری کا دعویٰ تو نہیں کرسکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہمارے بچپن میں کتب بینی کو ایک قسم کی غلط کاری ہی سمجھا جاتا تھا۔ میرا مطلب درسی کتابوں کے علاوہ کتب سے ہے۔ اسی عادت بد کے سبب فرسٹ ائیر میں مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے پڑھ بیٹھا۔ وہ تو اپنی کاہل الوجودی آڑے آئی ورنہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے مِیں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ اب اس عمر میں بھی اکثر سہانے خواب تارڑ صاحب کی معیت میں قرطبہ لی گلیوں میں دیکھے جاتے ہیں۔

کتب بینی کے سائیڈ ایفیکٹس کی اقسام گنوانا اور ان کا علاج تجویز کرنا نہ میرا مقصود ہے اور نہ مقدور ا، س لیے چند مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

کتب بینی کے مضر اثرات کی کلاسیکی مثال (Don Quixote) ہے، (جسے مستنصر حسین تارڑ "دانکے خوتے" اور پاکستانی انگریزی خوان "ڈان کوئیٹے" کہنے پر مصر ہیں)۔ یہ ہسپانوی زمیندار جو معمولی پڑھا لکھا تھا، بد قسمتی سے کتابوں کا رسیا ہوگیا۔ وہ اس لت میں پڑ کے نہ صرف وہ زمینداری کے کام سے گیا، بلکہ زمینیں بیچ بیچ کر کتابیں خریدتا رہا اور قلاش ہوتا گیا۔ اس پر مستزاد، داستانی سورماووں کے محیر العقول کارنامے پڑھ پڑھ کر اس کے کمزور جسم کا کمزور دماغ الٹ گیا۔ وہ خود کو ایک سورما سمجھنے لگا اور نکل پڑا دنیا کو فتح کرنے۔ اس کے بعد اس بیچارے کے ساتھ جو کچھ ہوا، اسے جاننے کے لیے کتاب کو پورا پڑھنا ضروری نہیں، بس تصور کرنا ہی کافی ہے۔ (ویسے کتاب میں نے بھی پوری نہیں پڑھی ہے)۔

ہمارے ایک عزیز بزرگ ہیں۔ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو یہ صاحب اقبال کے عاشق تھے اور ہر وقت کلام اقبال میں ڈوبے رہتے۔ ہم اقبال کے اشعار کے معنی ان سے پوچھا کرتے تھے۔ ایک عرصہ بعد ان سے اقبال کا ذکر کیا تو بولے "برخوردار اقبال کا مرتبہ اپنی جگہ، لیکن شاعری پڑھنی ہے تو غالب کو پڑھ"۔ سو ہم نے دیوان غالب خرید لی اور مدت مدید تک حضرت کی رہنمائی میں "شمار سبحہ مرعوب بت مشکل پسند آیا" سے سر ٹکراتے رہے، تب کہیں جاکر ان کی زبانی انکشاف ہوا کہ "اگلے وقتوں میں کوئی میر بھی تھا"۔ میر تک پہنچتے پہنچتے ہماری عمر شاگردی اور ان کی عمر استاذی کے جھمیلے جھیلنے کے قابل نہیں رہی، بلکہ استاذ محترم کی عمر تو کسی قابل بھی نہ رہی۔ انہیں شاعروں اور ان کے دواوین سے رشتے جوڑتے توڑتے، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا خیال ہی نہیں آیا۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو ایک دن فرمانے لگے"برخوردار، یوں سمجھو ہم نے تو یہ عمر یوں ہی گنوا دی"۔ عرض کیا "دریں چہ شک"۔ بولے "بات تمہاری بھی ٹھیک ہے، لیکن بات وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو"۔ " پھر کیا ہے" عرض کیا۔ بولے "اب جاکے معلوم ہوا کہ شاعری تو صرف مرزا بیدل کی ہے۔ " ثبوت کے لیے انہوں نے بیدل کا ایک شعر پڑھا اور اس کا مطلب سمجھایا۔

کسی در بند غفلت ماندہ ای چون من ندید این جاست= دو عالم یک در باز است و می جویم کلید این جاست

یعنی: مجھ جیسا غافل کس نے دیکھا ہوگا کہ عالم میرے سامنے ایک کھلے دروازے کی طرح ہے، اور میں اس کی چابی ڈھونڈتا رہا ہوں۔

بیدل نے نہیں معلوم کس کیفیت کے تحت یہ بات کی ہو گی، لیکن استاذ محترم پر یہ شعر سو فیصد صادق آرہا تھا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے چابی تو کیا دروازہ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔

ایک اور صاحب پولیس میں تھانیدار تھے۔ محکمۂ پولیس میں غلط کاریوں کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن ایسی غلط کاریاں جن کا نتیجہ کتب بینی یا اخبار بینی کی عادت کی صورت میں نکلے ، پولیس کے لیے بھی بہت ہوتی ہیں۔ ان صاحب کو نمعلوم یہ لت کیسے پڑ گئی کہ پولیس کے کسی کام کے نہیں رہے۔سنا ہے کہ جب وہ تھانے کے ایس ایچ او تھے تو صحن میں چارپائی پر حافظ، غالب اور اقبال وغیرہ کے ساتھ لوٹتے رہتے۔ محرر آکر سیلوٹ مارتا "حضور دریا کنارے ایک لاش ملی ہے" وہ کتاب سے نظر ہٹائے بغیر حکم صادر کرتے "نفری بھیج دو" اور پھر مثنوی کی بحر میں غوطہ لگاتے۔ اسی طرح ادھر ڈوبتے اُدھر نکلتے، یہ مرد مومن ریٹائرمنٹ کے ساحل تک پہنچے تو ڈی ایس پی ہو چکے تھے۔ ان کے ساتھیوں کی کوٹھیاں تیار تھیں لیکن وہ کوٹھی تو کیا کوٹھڑی تک نہ بناسکے۔ ایسے میں شادی کرتے تو بیگم کو کہاں رکھتے۔ بھائیوں نے انہیں گاوں لے جانا چاہا تو پوچھا "صبح تازہ اخبار ملے گا؟" کسی مخیر افسر نے تھانے کے پچھواڑے میں ایک کمرہ بمع نوکر دے دیا۔ اب موصوف اسی میں رومی اور غالب کی جان کو روتے ہیں۔

ہمارے ایک مہربان شاہ صاحب ہیں جو ساری عمر کتابیں جمع کرتے رہے۔ پچھلے دنوں ان کے ہاں گئے تو کتابوں کے درمیاں گم سم بیٹھے تھے۔ حال پوچھا تو آہ بھر کر بولے "بو علی اندر غبار ناقہ گُم" ۔۔۔ مطلب دریافت کیا تو کہنے لگے "سوچتا ہوں زندگی بھر پڑھا لیکن حاصل کیا کیا ، وہی حیرت پر حیرت۔ وہ تو جہالت میں بھی تھی۔۔۔۔ وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے۔ لیلیٰ کی اونٹنی کے پیچھے دوڑ کر اس کے پاوں کی گرد میں گُم ہونے سے کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ دور سے اس کا نظارہ کرتے۔ اب سوچتا ہوں کہ کوئی شمس تبریز آ جائے اور ان سب کو اٹھا کر دریا میں ڈال دے اور میری جان چھوٹ جائے ۔ پھر پیر رومی کے ہندی مرید حضرت اقبال نے یونہی تو نہیں کہہ دیا کہ۔۔۔ ۔

شنیدم شبے در کتب خانۂ من= بہ پروانہ می گفت کِرم کتابی
بہ اوراقِ سینا نشیمن گرفتم = ہمہ تیرہ روزم زبے آفتابی
نکو گفت پروانہ نیم سوزے= کہ ایں نکتہ رادر کتابے نیابی
تپش می کند زندہ تر زندگی را= تپش می دہد بال و پر زندگی را"

میر اخیال ہے کہ ان صاحب کا کیس ڈان کوئکزوٹ سے ملتا جُلتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہے۔کیونکہ رومی کو پڑھ پڑھ کر یہ خود کو رومی سمجھنے لگے ہیں۔ بیماری کی یہ صورت حال بہت سنگین درجے کی اور ناقابل علاج ہوتی ہے ۔

دوا کی پرچی میں بچوں پر اس کے منفی اثرات کا تذکرہ الگ سے ہوتا ہے، اس لیے یہاں بھی ایک بچے کی مثال بے موقع نہیں ہوگی۔ ہماری پہلی ملازمت ایک بنک کے علاقائی دفتر میں تھی۔ دفتر کے بڑے افسر ایک بد حواس قسم کے صاحب تھے،جن کے طفیل قسم قسم کے ہنگامے ظہور پذیر ہوتے رہتے۔ ایک دن اپنے بیٹے کو دفتر لے آئے اور میرے کمرے میں بٹھا کر چلے گئے۔ وہ عجیب قسم کا بچہ تھا دبلا پتلا اور سنجیدہ سا، جیسے اُس میں بچپنا بالکل نہ ہو۔ اس کے پاس کپڑے کا ایک تھیلا تھا جو سکول کا بستہ نہیں لگ رہا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے پوچھا کہ انکل آپ کتابیں پڑھتے ہیں؟ نو دس سال کے بچے کے منہ سے یہ سوال بڑا عجیب لگا ۔ میرے مثبت جواب سے اس کی حوصلہ افزائی ہوئی تو اس نے اپنا تھیلا کھولا، جس میں سے ٹارزن کی کہانیاں اور اس جیسی دوسرے کتابیں برآمد ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت کا دن رات یہی شعل ہے۔ یہ کھیلتے ہیں اور نہ باہر نکلتے ہیں۔ جیب خرچ بھی اسی راہ میں چلی جاتی ہے۔ وہ ٹارزن وغیرہ کو حقیقی کردار سمجھتے تھے اور ان سے ملنے بلکہ ان جیسا بننے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ اس کے بعد وہ کئی بار دفتر آئے اور میرے ساتھ ٹارزن صاحب کے بارے میں پرمغز گفتگو کی، یوں ہم گہرے دوست بن گئے۔

ایک دن دفتر میں ہنگامہ مچ گیا کہ صاحب کا بیٹا صبح سے غائب ہے۔ دوسرے لوگوں کو تو صاحب کے بیٹے کا غم تھا، لیکن میرا تو دوست کھو گیا تھا۔ ان کے گھر پہنچے تو کہرام مچا ہوا تھا۔ ماں اور بہنیں بے ہوش تھیں اور باپ بدحواسی کے مراحل سے گذر کر پاگل پن کی حدود کو چھو رہا تھا۔ ہم نے تھانے میں رپورٹ کی اور ریڈیو پر اعلان کریا، لیکن رات گئے تک اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ تاہم اگلی صبح معلوم ہوا کہ بچہ مل گیاہے۔ رات تین بجے ایک پولیس والا گشت پر تھا۔ اسے ایک دکان کے تھڑے پر بچہ سویا ملا۔ معلوم ہوا کہ بچے کا اپنی بہن سے جھگڑا ہوا تھا۔ امی نے بھی ڈانٹا تو اپنا تھیلا اُٹھایا اور باہر نکل گیا۔ ارادہ تھا کہ اپنے دوست ٹارزن کو بلا لائےاور اپنے گھر والوں کی گوشمالی کرائے۔ سکندر پورے کی گلیوں میں جنگل اور جنگل میں ٹارزن کو ڈھونڈنے میں رات آگئی تو تھڑے پر تھیلے کو سرہانہ بنا کر سو گئے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ == افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

وہ بھی بچے تھے ایک آج کل کے بچے ہیں، جو ریاضی اور فزکس کی کتاب کو کتاب سمجھتے ہیں۔ اوپر سے اتنے بد عقیدہ کہ میں نے اپنے تین سالہ بیٹے کو جن بھوت کی کہانی سنانے کے بعد پوچھا کہ جن کیا ہوتا ہے، تو بولا "کارٹون ہوتا ہے"۔ اب تو ہم سب نے بچوں کو جون ایلیا کی زبانی یہ دعا دے کر سُلا دیا ہے کہ:

میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر تم سے کہتا ہوں
بہت دکھ دے گی تجھ میں فکر اور فن کی نمو مجھ کو
تمہارے واسطے بے حد سہولت چاہتا ہوں میں
دوام جہل و حال استراحت چاہتا ہوں میں

بقول یوسفی صاحب کے، قدرت کےکھیل نرالےہیں۔ جب وہ دانت دیتی ہےتوچنےنہیں ہوتے۔ اورجب چنےدینےپرآتی ہےتودانت ندارد۔ ہمیں پڑھنے کو کتابیں نہیں ملتی تھیں ۔ اب کتابیں تو بہت ہیں، لیکن بچوں کے پاس کتابیں پڑھنے کو وقت نہیں۔

کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com