Back

محمد علی چترالی

پروفیسر جمیل یوسفزئی

یوں تو تاریخ میں کئی نامور محمد علی گزرے ہیں، لیکن میں جس محمد علی کی بات کر رہا ہوں وہ اتنا نامور تو نہیں البتہ گنجور ضرورہیں, ہر طرح سے۔ ان سے میری پہلی ملاقات دیر گورنمنٹ کالج میں ہوئی۔ یہ ملاقات چھ سالہ رفاقت پر محیط ہو گئی۔ اس رفاقت میں اُنس ومحب اور تنگی ترشی سب کچھ شامل تھا۔ دیر کا کالج اُن دنوں مختصر سا تھا، جس کے غیر مقامی اساتذہ بیچلرز ہاسٹل میں رہتے۔ تاہم محمد علی صاحب نے ایک کوارٹر پر قبضہ جمایا ہوا تھا کیونکہ ان کے اہل خانہ کبھی کبھار ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ وہ تاریخ کے پروفیسر تھے اور دیر کے لڑکے تاریخ خال خال ہی پڑھتے۔ اس لیے وہ عموماً فارع رہتے اور اس فراعت کو مطالعے میں صرف کرتے۔ حافظہ قوی تھا اس لیے نہ صرف معلومات وسیع تھیں بلکہ بہت پرانی باتیں بھی حرف بحرف یاد رکھتے۔ تاریخ کے علاوہ سیاست سے بھی شعف رکھتے۔ ایک دفعہ مجھے پکارا "ہلکہ، او جمیل۔ یہ دھر رگڑا کا کیا مطلب ہے؟" عرض کیا کہ "دھر رگڑا کا تو علم نہیں البتہ خالص رگڑا یہاں کی نوکری ہے"۔ فرمایا "1985 میں جنگ اخبار میں ایک کارٹون کے ساتھ یہ لکھا تھا"۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستانی سیاست کی اصطلاح ہے، جس میں مخالفین کے لیے دھمکی کا عنصر پوشیدہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے اسے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے بارے میں استعمال کیا تھا: رگڑے پہ رگڑا، دھر رگڑا ۔۔ دم مست قلندر دھر رگڑا ۔۔ مٹ جائے کفر دا سب جھگڑا

کالج میں داخلے کے انٹرویو ہورہے تھے۔ ایک لڑکا آیا جو کوہستان کے گاؤں گانشال سے تھا۔ محمد علی نے سوال کیا کہ تمہارے گاؤں کی کیا چیز مشہور ہے؟ لڑکا جواب نہیں دے سکا تو پوچھا کہ کیا وہاں اوگئی نہیں بنتی؟ لڑکے نے اثبات میں جواب دیا تو محمد علی فاتحانہ انداز میں بولے "یاد رکھو! گانشال اوگئی کے لیے مشہور ہے"۔ پھر میری طرف مُڑے"جانتے ہو، اوگئی کیا ہوتا ہے؟"۔ اب لاعلمی ظاہر کرنے کی باری میری تھی۔ "بڑے ادیب بنتے ہو اور اپنے علاقے کی چیز کا علم نہیں" وہ بولے "یہ ماسک ہوتا ہے جسے پرندوں کا شکار کرنے والے منہ پر پہنتے ہیں۔ بڑے نیولے کی کھال سے بنتا ہے، جس کا وزن پانچ سیر ہوتا ہے"۔ میں ان کی معلومات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک عرصے بعد مقالات سرسید پڑھتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ یہ لفظ ہندی میں اوگھی ہے جو جال یا دام کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

ایک دفعہ ایک لڑکے سے پوچھا کہ کہاں کے ہو؟ اس نے بتایا کہ وہ باجوڑ کے انات کلی (عنایت قلعہ) سے ہے۔ محمد علی نے پوچھا "کیا انات کلی میں اب بھی کیمخت بنتا ہے؟" "اگر آپ معجون کی بات کر رہے ہیں تو وہ اب بھی بنتا ہے؟" لڑکے نے جواب دیا۔ معلوم ہوا کہ یہ بہت قدیم زمانے سے اس جگہ بنتا ہے اور بابر بادشاہ نے اپنی توزک میں اس کا ذکر کیا ہے۔

ان کو ادب سے بھی کافی شعف تھا۔ ایک دن آواز دی "ہلکہ، جمیل! وہ شب جائے کہ من بودم والی نعت کا مطلع یاد ہے؟"۔ میں نے معذرت کردی۔ اگلے دن دیکھا تو لائبریری میں امیر خسرو کی کتاب میں تلاش کر رہے ہیں۔ العرض بظاہر کم گو اور گم سم نظر انے والا یہ شخص عضب کا مطالعہ اور معلومات رکھتا تھا۔ وہ ریڈیو کے بھی شوقین تھے۔ بی بی سی اور وائس آف جرمنی باقاعدگی سے سنتے۔ وہ بات کرنے میں دھیمے اور دیر سے جواب دینے والے تھے۔ شیخ سعدی نے ایسے شخص کو بطی کہا ہے، جس کے معنی عربی میں غور فکر کرکے دیر سے جواب دینے والا ہے۔

ایک دفعہ اکبر خان پرنسپل کی کسی بات پر سب نے قہقہہ لگایا لیکن محمد علی خاموش بیٹھے رہے کیونکہ ان کی توجہ کہیں اور تھی۔ اکبر خان نے استہفامیہ انداز میں میری طرف دیکھا تو میں نے کہا "ابترو چارے نہ پہ حساب کشی" یعنی "مجذوب لوگ تکلفات سے مبرا ہوتے ہیں"۔ اس پر دوبارہ قہقہہ لگا تو محمد علی کو ہوش آیا اور پوچھا کہ کیا ہوا۔

چترال کے لوگ یوں بھی بے ضرر اور سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ محمد علی میں یہ خصوصیات کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھیں۔ ملازمت کے شروع میں دیر کالج میں تعیناتی ہوگئی تو یہیں رہ گئے۔ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے۔ ان کا تبادلہ کون کرتا۔ اٹھائیس سال بعد جب ریٹائرمنٹ میں ایک سال رہ گیا تو کسی رحم دل سیکرٹری نے ان کو ان کے آبائی علاقے چترال میں ٹرانسفر کیا، جہاں سے وہ ریٹائر ہوگئے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

کچھ مزید اسی بارے میں

ممتاز حسین

۱۔ پروفیسر محمد علی کا تعلق تورکھو چترال سے ہے۔ انہوں نے ملازمت کا سارا عرصہ دیر میں گزارا۔ وہاں وہ بہت مقبول شخص تھے اور ہر کوئی انہیں جانتا تھا۔ ان کے بارے میں بہت سی پر لطف باتیں مشہور تھیں۔ ایک پروفیسر کہتے تھے کہ محمد علی صاحب نے اٹھائیس سال میں پشتو کا صرف ایک لفظ سیکھا ہے 'خر بچئے'۔ وہ اس لفظ کا ستعمال ہر کسی کے لیے بے تکلفی سے کرتے اور کوئی برا نہیں مناتا۔ وہ ہر چیز کا ریکارڈ رکھنے کے شوقین تھے۔ زندگی میں جتنے خطوط وغیرہ انہوں نے لکھے تھے ان کی نقلیں اوران کے نام آنے والے سارے کاغذات فائلوں میں محفوظ رکھے تھے۔ نہ صرف کاغذات بلکہ باتیں بھی دل میں رکھتے تھے۔ زندگی میں ان کو چند لوگوں سے شکایتیں تھیں جنہیں وہ نہ صرف یاد رکھتے بلکہ دھراتے بھی۔ حالانکہ یہ شکایتیں بھی کوئی خاص نہیں تھیں بلکہ عام بے ضرر گپ شپ والی۔ مثلاً جب وہ کالج میں پڑھنے کے لیے پشاور گئے تو ان کے گاؤں میں کسی نے مذاق میں ان کے باپ سے کہا اتنے چھوٹے بچے کو کیوں اتنی دور بھیجا، کہیں لواری میں کوے اسے اٹھا نہ لے جائیں (اشارہ ان کے بہت چھوٹے قد کی طرف تھا)۔ محمد علی صاحب اب تک وہ مذاق والی بات نہیں بھولے ہیں۔

بظاہر پیسے کے معاملے میں وہ جز رس نظر آتے ہیں، لیکن ان کی سادگی کا فایدہ اُٹھا کر لوگ ان سے قرض لیتے اور واپس نہ کرتے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان سے مزید ادھار لیتے۔ جب وہ دیر سے ٹرانسفر ہورہے تھے تو اپنے بہت سے قرضداروں سے اقرار نامے لکھوا کر اور مجھے گواہ بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ لیکن آخری اطلاع تک ان میں سے کسی نے پیسے واپس نہیں کیے۔

۲۔ یہاں جس چیز کو اوگئی کہا گیا ہے اسے کھوار میں پردانج کہتے ہیں۔ چترال میں کھال سے نہیں، زرد رنگ کے کپڑے کا بنا تے ہیں۔ اس پر آنکھوں کی طرح گول دائرے بنے ہوتے ہیں اور دو کونے کانوں کی طرح لمبے جن پتلی لکڑیاں ڈالنے سے کانوں کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ شکاری پردانج پہن کر پرندوں کی طرف جاتا ہے تو وہ اسے کوئی عجیب جانور سمجھ کر رک جاتے ہیں۔ بڑا نیولا سے مراد غالباً marmot ہے۔ اسے کھوار میں بِشیندی کہتے ہیں اور یہ بہت بلند مقامات پر زمین میں بل بنا کر رہتا ہے۔

(یہ تحریر گورنمنٹ کالج چترال کے سٹوڈنٹس میگزین "پنار" میں شائع ہوئی تھی)

The writer

Jamil yosufzai (Sayyad Badrul Jamil) is a Professor of Urdu Literature. A prolific writer who has made contribution to almost all forms in Urdu and Pashto. His main field of interest is Pashtun History.
19.03.2018

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com