جناب نقیب اللہ رازی اور صالح ولی آزاد کے مضامین کے سلسلے میں نوجوان شاعر ثناء اللہ ثانی نے اپنا تبصرہ ارسال کیا ہے۔

شاعری اور علم عروض

ثناء اللہ ثانی

عروض وہ علم ہے جس کے ذریعے اشعار کے اوزان اور بحور معلوم کیے جاتے ہیں۔ نیز اس کی مدد سے شعر کے حسن و قبح کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس علم کا موجد خلیل احمد بصری کو ماناجاتا ہے جو ۱۰۰ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوا۔ اس نے اس علم کے قواعد کی بنیاد اپنے قیام مکہ کے دوران رکھی۔ مکہ کا ایک نام عروض بھی تھا، اسی مناسبت سے اس نے اس علم کا نام عروض رکھا۔

کھوار شاعری میں اس علم کے استعمال کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے استاذ محترم جناب نقیب اللہ رازی صاحب نے فرمایا ہے کہ "عروض سے لاعلم شخص شاعری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور عروض کے قوانین سے باہر کسی مقفیٰ و مترنم کلام پر شاعری اطلاق نہیں ہوسکتا۔"

اس سے پہلے کہ میں اس بیان کے بارے میں کچھ کہوں، یہ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ اس علم کا موجد ۱۰۰ ہجری میں پیدا ہوا تھا۔ وہ علم عروض کے موجد تھے، نہ کہ شاعری کے۔ شاعری ان سے بہت پہلے سے ہوتی رہی تھی۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں ارسطو نے منظوم ڈرامے لکھے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان سے پہلے ان کے استاذ افلاطون نے شاعری کی کی مذمت کی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان کے زمانے میں شاعری کا رواج ہوگا جس کی اس نے مذمت کی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس زمانے میں شاعری علم عروض کے بغیر ہی ہوتی رہی۔

لفظ "شعر" کے اصل معنی عربی میں بال کے ہیں۔ یعنی نہایت باریک چیز۔ دوسرے لفظوں میں شعر نہایت باریک خیالات کا بیان ہے۔ اسی مادے سے لفظ "شعور" نکلا ہے، اور شاعری کا شعور سے گہرا تعلق ہے۔ یقیناً شاعری کے لیے گہرے شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ شعور بنیادی طور پر ایک خداداد صلاحیت ہے۔ جو ہر انسان کو ایک خاص مقدار میں عطا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان میں شعوری سطح بلند ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں خوبصورت خیالات پیدا ہوتے ہیں، اور وہ ان کو ظاہر کرنے کے لیے عمدہ طریقے اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں شعر ہی ان خیالات کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اب اگر ایک شخص کے دل میں خوبصورت خیالات موجزن ہوں، لیکن اسے مناسب قوافی نہ ملیں یا وزن اور بحر کی رکاوٹیں راہ میں حائل ہوں تو کیا وہ ان خیالات کو سینے میں دبائے رکھے گا؟

ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ ان کے اظہار کے لیے راہیں تلاش کرے گا۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ شعر کے ایسے اصناف کو ذریعہ اظہار بنائے جن میں یہ پابندیاں نہیں یا بہت کم ہیں، جیسے ازاد نظم اور نظم معرا۔ یہ اصناف انہی ضرورتوں کے پیش نظر وجود میں لائی گئیں، اور رائج ہوئیں۔ چناچہ آج ان اصناف میں شاعری کرنے والے کثیر تعداد میں ہیں۔

تاہم غزل، مثنوی، قصیدہ اور رباعی جیسی اصناف میں عروضی قواعد کی پابندی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان قواعد کے برخلاف لکھے گئے کسی کلام کو ہم غزل ہر گز نہیں کہ سکتے۔ لیکن اسے ہم نظم کے زمرے میں تو رکھ سکتے ہیں۔ تو کیا ہم ایک نظم لکھنے والے کو شاعر کا درجہ دینے سے انکار کریں اور صرف غزل گو کو شاعر کہیں؟ یہ تو سراسر ناانصافی ہوگی۔ ایک نطم گو کو بھی شاعر کہلانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا غزل گو کو۔ کیونکہ دونوں شعور کو استعمال کرتے ہیں جو ایک عطیۂ خداوندی ہے۔ دونوں اپنے اپنے انداز میں اپنا پیعام دیتے ہیں۔ البتہ نظم گوئی آسان ہے اور غزل گوئی مشکل۔ جہاں نظم کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں غزل شروع ہوتی ہے۔ بہر حال یہ کہنا زیادتی ہوگی کہ غزل مشکل ہے اس لیے صرف غزل گو کو ہی شاعر مانا جائے۔

جہاں تک خود غزل کا معاملہ ہے، اس میں بھی ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ اعلیٰ پایے کے شعراء کے کلام میں عروضی قواعد کے لحاط سے کمی ہو۔ مثلاً غالب کے کئی اشعار وزن سے گر جاتے ہیں، حالانکہ وہ اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح میر تقی میر ایسی کوتاہیوں کے باوجود خدائے سخن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اقبال سے ایک مرتبہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے کہا کہ "آپ نے اس شعر میں علامت مفعول (کو) چھوڑ دیا ہے

مجنون نے دشت چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نطارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

یعنی صحر اور لیلیٰ دونوں کے ساتھ "کو" لگانا چاہیے تھا۔" اقبال نے جواب دیا کہ "بیٹا! علامت مفعول آپ لگایئں اور میرا پیعام لوگوں تک پہنچایئں۔" مطلب میرا یہ ہے کہ ان کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے اقبال کی شاعری کا مرتبہ کم نہیں ہوتا۔

العرض شاعری ایک قدیم فن ہے جبکہ عروض بعد کے زمانے کی کی پیداوار ہے۔ اس لیے محترم رازی صاحب کا یہ کہنا کہ "عروض سے باہر کسی کلام پر شعر کا اطلاق نہیں ہوتا" سراسر زیادتی ہے۔ ہر اس شخص کو شاعر کہلانے حق ہے جو کسی بھی صنف میں سخن آرائی کرے۔ ہمیں قواعد و ظوابط کے نام پر ازادیٔ اظہار کا گلا نہیں گھونٹنا چاہیے۔ اگر ہم عروضی قواعد کی بنیاد پر شعراء کی چھانٹی شروع کردیں تو پھر ہمیں میراجی، ن۔ م۔ راشد اور ان جیسے بہت سے بلند پایہ اساتذہ کو شعراء کی فہرست سے خارج کرنا پڑے گا۔


اسی سلسلے کے دیگر مضامین پڑھیے۔
کھوار شاعری میں علم عروض کا استعمال --- محمد نقیب اللہ رازی
علم عروض اور کھوار شاعری--- صالح ولی آزاد
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com